سیاسی بحران میں شدت حل نکالا جائے

حالیہ سیاسی بحران میں حکومت کا خاتمہ فی الفورہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ آئین اورپارلیمنٹ کی چھتری تلےاسے تحفظ حاصل ہے.


Editorial October 20, 2014
عالمی سطح پر پاکستان ایک ایسے ملک کی صورت اختیار کر گیا ہے جہاں حکومت کمزور ہے اور اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ فوٹو فائل

ملک بھر میں دھرنوں کے بعد جلسے جلوسوں سے سیاسی فضا میں اچھی خاصی ہلچل پیدا ہو گئی ہے اور ملک میںسیاسی بحران بدستور جاری ہے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے دھرنوں سے نکل کر جلسے کرنے شروع کر کے سیاسی ماحول میں مزید گرما گرمی پیدا پیدا کر دی ہے۔ اب پیپلز پارٹی نے بھی کراچی میں ایک بڑا جلسہ کر کے سیاسی گرمی کی حدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

بادی النظر میں حالیہ سیاسی بحران میں حکومت کا خاتمہ فی الفور ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ آئین اور پارلیمنٹ کی چھتری تلے اسے تحفظ حاصل ہے اور جب تک اسے یہ تحفظ حاصل ہے حکومت چلتی رہے گی مگر دھرنوں کے بعد اب جلسوں کا شروع ہونے والا سلسلہ خطرے کی گھنٹی ضرور بن چکا ہے ۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے دھرنوں کا سلسلہ حکومت کے خاتمے کے نام ہی پر شروع کیا تھا۔

دونوں جماعتوں کے قائدین حکومت سے بار بار مستعفی ہونے اور مڈٹرم الیکشن کرانے کا مطالبہ کرتے آرہے، اب وہ اپنے اس مطالبے کو منوانے کے لیے ملک گیر جلسے کر رہے ہیں۔ ان دھرنوں اور جلسوں کے عوامی رویوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے جس کا اظہار ملتان کے ضمنی الیکشن میں جاوید ہاشمی کی شکست اور تحریک انصاف کی کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔

اس جیت نے تحریک انصاف کو نیا حوصلہ دیا اور اس کے جلسوں پر مزید جوش پیدا ہو گیا۔ کراچی میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے اور لاڑکانہ میں جلسے کے اعلان نے پیپلز پارٹی کے قائدین کو بھی متحرک کر دیا اور پیپلز پارٹی نے بھی ہفتہ کو کراچی میں جلسہ کر ڈالا۔ بلاشبہ عوامی تعداد کے لحاظ سے یہ ایک بڑا جلسہ تھا اور عوامی جوش و خروش بھی خاصا نظر آیا۔

سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سانحہ کار ساز کے شہدا کی یاد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جہاں دھرنے والوں کو ہدف تنقید بنایا وہاں انھوں نے مفاہمت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ دشمنی میں اس حد تک نہ جایا جائے کہ پھر دوستی نہ ہو سکے۔ سیاست کا کھیل نرالا اور بے رحم ہے اس میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بننے میں دیر نہیں لگاتے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جہاں مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا وہاں انھوں نے دھرنے والوں کو بھی خوب لتاڑا۔ پیپلز پارٹی کراچی میں ہونے والے اس جلسہ کے ذریعے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہی۔ کچھ عرصہ سے یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور اگر صورتحال یونہی جاری رہی تو پیپلز پارٹی کو مزید نقصان پہنچے گا اور آیندہ الیکشن میں وہ سندھ کے اقتدار سے بھی باہر ہو سکتی ہے۔

اس بڑے جلسے نے پیپلز پارٹی کے احیا کی کوششوں کو کامیابی کی طرف رواں دواں کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ پیپلز پارٹی آج بھی عوام میں اپنی مقبولیت رکھتی ہے۔ بعض سیاسی مبصرین اس رائے کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور پنجاب کی ایک بڑی تعداد نے اس کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے' ملتان کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کی شکست کو بھی اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اب پیپلز پارٹی پنجاب میں بھی جلسے کرے گی ۔ادھر جماعت اسلامی بھی ملک بھر میں جلسے کر کے سیاسی ماحول کو گرما رہی ہے۔

اس طرح ملک میں تین بڑے سیاسی گروہ آمنے سامنے آگئے ہیں،ایک گروہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا،دوسرا پیپلز پارٹی اور تیسرا حکومت کا ہے،اول الذکر دو گروہ عوام کو متحرک کرنے کے لیے سرگرم ہیں جب کہ حکومت تمام تر وسائل کے باوجود مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ تحریک انصاف' عوامی تحریک' پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ہونے والے جلسے اس امر کے غماز ہیں کہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ اب اپنی بقیہ مدت اقتدار پرسکون طریقے سے نہیں گزار سکے گی۔

اس وقت ملک میں جنم لینے والے سیاسی بحران نے ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔ عوام کی اکثریت پریشان ہے اور موجودہ بحرانی صورت حال کا حل چاہتی ہے مگر عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی جانب سے شروع ہونے والے جلسوں کے سلسلے سے جو سیاسی بحران جنم لے چکا ہے اس کا فوری حل دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ ان جماعتوں کے قائدین حکومت سے کسی طور مفاہمانہ رویہ اپنانے کے لیے آمادہ نہیں بلکہ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت مستعفی ہو اور دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔

ملک کا سیاسی منظر نامہ خاصا پیچیدہ ہو گیا ہے' اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے اب جلسوں کی شکل میں ملک بھر میں پھیل رہے ہیں' پیپلز پارٹی اب دیگر شہروں میں بھی جلسے کریگی۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ کیسے ختم ہو گا' اس حوالے سے فریقین کے پاس کوئی فارمولا نہیں ہے' ایسا لگتا ہے کہ ملک کی ساری سیاسی قیادت احتجاج پر نکلی ہوئی ہے' ایک دوسرے پر کرپشن اور نااہلی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں لیکن بحران کا حل کسی کے پاس نہیں ہے' ملک کی سیاسی قیادت اپنے اختلافات کو باہمی مذاکرات سے دور کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے' یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے'ملک کی معیشت ڈانواں ڈول ہے' امن و امان کی صورتحال خراب ہے' دہشت گرد ایک بار پھر سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عالمی سطح پر پاکستان ایک ایسے ملک کی صورت اختیار کر گیا ہے جہاں حکومت کمزور ہے اور اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اب تو پیپلز پارٹی جو اس جمہوری سیٹ اپ کی ایک بڑی اسٹیک ہولڈر ہے' وہ بھی جلسوں کے لیے میدان میں آ گئی ہے' اگر حکمران جماعت بھی جلسے کرنے پر آ گئی تو پھر سیاسی محاذ آرائی میں شدت پیدا ہو گی اور باہمی ٹکرائو کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کی سیاسی قیادت کو حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہیے اور تمام فریقین کو بیٹھ کر احتجاجی دھرنوں اور جلسہ سیاست کے خاتمے کے لیے کوئی قابل قبول اور دیرپا حل نکالنا چاہیے تاکہ ملک میں جاری سیاسی بحران ختم ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں