بلدیاتی نشاۃ ثانیہ کی طرف پیش قدمی

لوکل گورنمنٹ وفاق ، جمہوری اکائیوں اور خوشحالی کے درمیان اشتراک عمل کا بہترین پل ہے۔


Editorial October 21, 2014
بادی النظر میں بلدیاتی نظام اور خود اختیاری حکومت کے قیام پر اب کسی قسم کے سمجھوتے کا کسی صوبائی اکائی کو کوئی اختیار نہیں، فوٹو فائل

سپریم کورٹ نے پنجاب اور سندھ حکومتوں کو بلدیاتی الیکشن کے لیے قانون سازی مکمل کرنے کے لیے 30اکتوبر تک مہلت دیدی جب کہ خیبر پختونخوا حکومت کو تیاری کے لیے ایک ماہ کا وقت دیدیا ۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں فل بنچ نے سماعت کی ۔

عدالت عظمیٰ کے ملک کی تین صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کے جلد انعقاد کا حکم نہ صرف وقت کا بنیادی تقاضہ ہے بلکہ اس سے طرز حکمرانی میں اساسی تبدیلی کا احساس پنہاں ہے، لوکل گورنمنٹ قانون میں آئینی ترامیم اور بلدیاتی انتخابات کی ڈیڈ لائن کے اعادہ کے بعد ارباب اختیار کے پاس یہی ایک راستہ ہے کہ وہ قانون اور آئین کو اپنی وقتی سیاسی اسٹرٹیجی اور مکروفریب سے شکست دینے کی مزید کوشش نہ کریں بلکہ اس واضح حقیقت کا ادراک کرلیں کہ وفاقیت اور ریاستی ڈھانچے کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کے ساتھ ساتھ شفاف، باوقار، فعال، اور متحرک بلدیاتی نظام کا احیا ہے جب کہ تمام مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کو نئی حلقہ بندیوں اور ضروری ترامیم کے لیے اب سنجیدہ ہوکر بلدیاتی انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کو ان کی روح کے مطابق روبہ عمل لانا چاہیے۔

اسی میں جمہوریت کی بقا بھی ہے اور وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومتوں کو اپنے بہت سارے سماجی، ترقیاتی کاموں اور روزمرہ مسائل کے حل کے لیے فری ہینڈ بھی مل سکے گا ۔ آج جس بحران کا ملکی سیاست و معاشرت کو سامنا ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ فی الوقت عدالتی ڈیڈ لائن اور الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا جلد انعقاد ہے، اگریہ انتخابات اعصاب شکن اور انتہائی مشکل ہوتے تومشکل میں گرفتار صوبہ بلوچستان نے اس کے انعقاد میں کیسے کامیابی حاصل کی حالانکہ بلوچستان میں ہونے والی بلدیاتی پیش رفت کی پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا کو پیروی اور تقلید کرنی چاہیے تھی ، بجائے اس کے عدلیہ کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اپنے مسلسل احکامات کے ذریعے انھیں اس آئینی ذمے داری سے عہدہ برآ ہونے کی بار بار تلقین کرے ۔ پنجاب حکومت کے وکیل رزاق اے مرزا نے بتایا کہ حکومت نے لوکل باڈیز ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل اکرم شیخ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی الیکشن بائیو میٹرک نظام کے ذریعے کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس ضمن میں ابتدائی اقدامات کے لیے چار پانچ ماہ کا وقت درکار ہوگا، اس مقصد کے لیے صوبائی حکام نے الیکشن کمیشن کے حکام سے ملاقات بھی کی ہے ۔

تاہم چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن اور خیبر پختونخوا حکومت کو ہدایت کی کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے ایک ماہ میں اقدامات مکمل کرکے عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے جس کے بعد الیکشن کمیشن وہاں انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کرے گا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے، کئی محکمے اور اہم ادارے وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں، اب صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اس ''خود مختاری'' سے قومی ترقی کے عمل کو تیز کریں ، عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف ، تعلیم ، حفظان صحت ، روزگار ، رہائش ، ٹرانسپورٹ اور بلدیاتی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ امن و امان قائم کرنے پر توجہ دیں۔ادھر سندھ اسمبلی نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی ) بل منظور کرلیا جس کے تحت حد بندیوں کے اختیارات الیکشن کمیشن کو سونپ دیے گئے، پہلے یہ اختیارات صوبائی حکومت کے پاس تھے ۔

سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013میں ترمیم کی گئی ہے اور ایکٹ کے سیکشن 32سے پہلے سیکشن 31اے کا اضافہ کیا گیا، اسی طرح سیکشن 18کے بعد 18اے اور سیکشن 36میں سب سیکشن 36(1)کا اضافہ کیا گیا ہے۔ سیکشن 31اے کے مطابق الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یونین کونسلز ،یونین کمیٹیز اور وارڈز کی حد بندی کرے ۔ صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں بھی لوکل گورنمنٹ (ترمیمی ) آرڈیننس2014 منظوری کے لیے پیش کر دیا ۔ بلدیات کا سسٹم معاشرتی ضرورت ہے، یہ سیاسی دباؤ، کرپشن کی روک تھام اور عوامی مسائل کے حل کی کلید ہے جب کہ مرکزیت اور اختیارات کے ارتکاز نے پاکستان میں پاور پالیٹکس کی جس پر آشوب صورتحال کو جنم دیا ہے اس میں بلدیاتی نظام کی واپسی تریاق اور نسخۂ کیمیا کا کام دے سکتی ہے ۔ سیاست میں نیا خون بلدیاتی نرسریوں سے آئیگا، اور نئے سیاسی اور سماجی شعور ،اور جمہوری رویوں کے سنجیدہ راستے بلدیاتی اداروں اور فورمز کے ذریعے کھلیں گے ۔ بلدیاتی انتخابات کو شجر ممنوعہ بنانے کے بھیانک نتائج سب کے سامنے ہیں ۔

اس لیے اب لازم ہے کہ پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا کے حکمراں تبدیلی اور انقلاب کے شور میں حقیقی اور عملی قدم اٹھائیں ۔ لوکل گورنمنٹ وفاق ، جمہوری اکائیوں اور خوشحالی کے درمیان اشتراک عمل کا بہترین پل ہے، سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا انتظامیہ کو عدلیہ کی نرمی سے گڈ گورننس کے امکانات روشن کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ خود مختاری اور ادارہ جاتی سطح پر ترقیاتی اور روزمرہ کے کاموں کی تکمیل ہو ، اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے وسائل اور افرادی طاقت کو ترتیب و توازن کے ساتھ بروئے کار لایا جاسکے ۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے استدعا کی کہ کمیشن کو حلقہ بندیوں کا اختیار ملنے کے بعد اس کام کی تکمیل کے لیے 45دن کی مہلت کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے اور6 ماہ کا وقت دیا جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں قانون سازی مکمل ہونے کے بعد اس درخواست کو بھی سنا جائے گا جب کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے 28اکتوبر تک کی مہلت دی گئی ہے، یہ معاملہ بھی اس کے ساتھ دیکھا جائے گا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن صوبوں سے مشاورت کرکے بتادے کب تک بلدیاتی انتخابات کرانے کی پوزیشن میں ہوگا، زیادہ وقت نہیں دے سکتے ۔

ملک وقوم نے بلدیاتی نظام سے بوجوہ انحراف سے خاصا نقصان اٹھایا ہے ۔ جمہوریت کے اس بنیادی ادارہ کی گراس روٹ پر نمو اور آبیاری کے لیے سماجی اور جمہوری کمٹمنٹ کا بے مثال اور غیر متزلزل مظاہرہ ناگزیر ہے ۔ بادی النظر میں بلدیاتی نظام اور خود اختیاری حکومت کے قیام پر اب کسی قسم کے سمجھوتے کا کسی صوبائی اکائی کو کوئی اختیار نہیں ۔ بلدیاتی الیکشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ سپریم کورٹ نے لکیر کھینچ لی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں