دہشت گردی کا عفریت

مولانا فضل الرحمن جمہوریت پسند شخصیت ہیں جب کہ ہماری جنگ اسی جمہوریت کے خلاف ہے۔


Editorial October 24, 2014
مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام جمہوری روایات اور نظریات پر یقین رکھتی ہے، فائل فوٹو: آن لائن

کوئٹہ میں جمعرات کو دہشت گردی کے تین ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ شہر کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں بس پر فائرنگ سے آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ جاں بحق ہونے والوں کا تعلق ہزارہ قبائل سے تھا' کیرانی روڈ پر بھی نا معلوم افراد کی فائرنگ سے ہزارہ ٹائون کا ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔

دوسرے واقعے میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خود کش حملے میں بال بال بچ گئے تاہم دو افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمن' مفتی محمود کانفرنس' سے خطاب کے بعد جب وہ گاڑی میں بیٹھ کر جا رہے تھے تو خود کش حملہ آور نے قریب آنے کی کوشش کی تاہم سیکیورٹی اہلکاروں نے روکا تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ آئی جی پولیس عملیش خان کے مطابق سخت سیکیورٹی کی وجہ سے حملہ آور جلسہ گاہ میں داخل نہیں ہوسکا۔

کالعدم شدت پسند تنظیم جند اللہ نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن جمہوریت پسند شخصیت ہیں جب کہ ہماری جنگ اسی جمہوریت کے خلاف ہے۔ تیسرے واقعے میں ایف سی کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں تین راہگیر جاں بحق اور دو اہلکاروں سمیت 12 زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ایف سی اہلکار ہزار گنجی کے واقعہ کے بعد سرچ آپریشن میں مصروف تھے کہ سڑک کنارے نا معلوم افراد کی جانب سے بارود سے بھری موٹر سائیکل میں دھماکا ہو گیا جس سے گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔

یہ واقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ دہشت گردوں نے بلوچستان کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے ہوئے اسے اپنا مرکز بنانا شروع کر دیا جو ایک تشویشناک امر ہے۔ مبصرین کی جانب سے ایک عرصے سے کہا جا رہا ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک روز بروز مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے اگر اس نیٹ ورک کو توڑا نہ گیا اور اسے یونہی ڈھیل دی جاتی رہی تو آنے والے وقت میں امن و امان کی صورت حال بہت خراب ہو جائے گی جو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

دوسری جانب ایسے طبقات بھی موجود ہیں جو نظریے یا عقیدے کی بنیاد پر انتہا پسندوں کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان بھی جمہوریت پر یقین رکھنے والے سیاستدانوں کو اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائیاں کرنے کی دھمکیاں دیتی رہی۔ کچھ سیاستدانوں کو انھوں نے نشانہ بھی بنایا جس سے ملک بھر میں خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی۔ ایسے پریشان کن موقع پر بھی بعض مذہبی جماعتیں انتہا پسندوں کی حمایت کرتی رہیں، اب جند اللہ نے بھی جمہوری نظام کو اپنا دشمن قرار دیتے ہوئے جمہوریت پسند رہنماؤں کو اپنا نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے جس کا پہلا نشانہ مولانا فضل الرحمن بنے ہیں جو ایک مذہبی رہنما ہیں۔

مولانا فضل الرحمن ہمیشہ جمہوری نظامکی حمایت کرتے رہے ہیں اب ایک انتہا پسند تنظیم کی طرف سے ان پر حملہ جہاں تشویشناک امر ہے وہاں بدلتی ہوئی صورت حال کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ حملہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جمہوریت پسند شخصیات خواہ وہ مذہبی رہنما ہی کیوں نہ ہوں انتہا پسندوں کے نشانے پر رہیں گے۔ اب مذہبی جماعتوں کو بھی یہ سوچنا ہو گا کہ یہ انتہا پسند گروہ ملکی نظام اور سالمیت کے لیے حقیقی معنوں میں خطرہ بن چکے ہیں اس حقیقت کا بروقت ادراک کرتے ہوئے مذہبی رہنمائوں کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی۔

مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام جمہوری روایات اور نظریات پر یقین رکھتی ہے اور انھیں جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے وہ عام انتخابات میں بھی حصہ لیتی ہے۔ جند اللہ کا اعلان مذہبی رہنمائوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے اور آنے والے وقت میں وہ بھی دہشت گردوں کا ہدف بن سکتے ہیں۔ بلوچستان میں ہزارہ منگول قبیلے کے افراد کو کئی بار نشانہ بنایا گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں ایسے طاقتور انتہا پسند مسلح گروہ موجود ہیں جو بڑی دیدہ دلیری سے فرقہ واریت کی بنیاد پر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

دہشت گردی کی یہ کارروائیاں آنے والے وقت میں کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ شام اور عراق کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ فرقہ واریت اور مسلک ہی کو بنیاد بنا کر ان دو ممالک کو خانہ جنگی کا شکار کر کے تباہ کر دیا گیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اب عالمی سازشی قوتوں کی نظر پاکستان اور ایران پر ہے جو یہاں فرقہ واریت کو ہوا دے کر پاکستان اور ایران کو باہم دست و گریبان کرنا چاہتی ہیں۔

بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں بھی اس خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہاں دہشت گرد تنظیموں کو مضبوط کیا جا رہا اور فرقہ وارانہ کارروائیوں کو ہوا دی جا رہی ہے۔ اب انتہا پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے مذہبی رہنمائوں کو اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اپنی پالیسی تبدیل کر لینی اور اس عفریت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں