جمہوریت خطرات سے نمٹنے کا وسیلہ بنے

بھارت کی بالادستی کو یقینی بنانےکے لیے گریٹ گیم روبہ عمل لایا جارہا ہے، جس سے پاکستانی حکمرانوں کو خبردار رہنا چاہیے۔


Editorial October 25, 2014
جمہوریت بیسویں صدی کی نظریاتی جنگوں مین سب سے بڑی فاتح بن کر ابھری ہے۔ فوٹو: فائل

DUBAI: ایرانی سرحدی فورسز نے جمعہ کو پاکستانی علاقے میں پھر مارٹر گولے داغے جس کے جواب میں پاک فورسز نے بھی کارروائی کی ، یہ ایک ہفتے میں ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستان کی سرحدی علاقے میں کارروائی کا دوسرا واقعہ ہے ۔ یاد رہے ایک مرتبہ 5 ایرانی سرحدی محافظ ایک شدت پسند تنظیم کے ہاتھوں اغوا ہوئے تھے، پھر 18اکتوبر 2013 ء کو پاک ایران بارڈر پر ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا جب 30ایرانی سرحدی محافظین پاکستانی سرحد میں داخل ہوئے جن کی فائرنگ کے نتیجے میں ایف سی کا ایک اہلکار شہید ہوا تھا ۔

جس کے بعد سے دو طرفہ سطح پر کشیدگی اور بے اعتمادی کے باعث تناؤ دیکھا گیا، اس بار پاکستانی علاقے میں ایرانی اہلکاروں کی طرف سے مارٹر گولوں کا گرایا جانا سخت تشویش کا باعث بنا ہے تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے جمعہ کی صبح بلوچستان کے ضلع واشو کی تحصیل ماشکیل میں 6 مارٹر گولے داغے گئے تاہم جانی و مالی نقصان نہیں ہوا ۔ حکام کے مطابق گولہ باری کی آوازیں دور دور تک سنی گئیں جس سے خوف پھیل گیا ۔ واقعے کے بعد ایرانی سرحد سے منسلک علاقہ ماشکیل میں ایف سی کی مزید نفری کو طلب کرلیا گیا ، پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس واقعے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان جاری کیا جائے گا۔

پاک ایران تعلقات میں تناؤ اور دو برادر اور ہمسایہ ملکوں میں سرحدی جھڑپوں کو جتنی جلد دو طرفہ مفاہمت سے نمٹایا جائے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ چین سے مخاصمت اور اس کے خطے میں کردار کو محدود کرنے ، بھارت کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے گریٹ گیم روبہ عمل لایا جارہا ہے، جس سے پاکستانی حکمرانوں کو خبردار رہنا چاہیے، بیرونی قوتیں پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے سازش میں اس قدر سرگرم ہیں کہ سیاسی اور قبائلی رقابتوں کے ذریعے ریاستی نظام کو ملیا میٹ کرنے کے لیے نظریاتی، مذہبی ، مسلکی ، لسانی اور نسلی عصبیت کو ہوا دے رہی ہیں جو سامراج کا پرانا وطیرہ ہے، وہ اس خطے کو سیاسی ، جغرافیائی اور تزویراتی کشیدگی کا آتش کدہ بنانا چاہتی ہیں ، ایک طرف ایٹمی پروگرام پر ایران امریکا تنازع ،دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں انتہا پسندی، سیاسی و سماجی تبدیلیوں ، شورشوں کی نئی ہولناک لہر اور تیسری جانب پاکستان و افغانستان کی داخلی صورتحال محتاج توجہ ہے ۔

دہشت گردی اور طالبان کے بعد داعش نامی نئی عفریت کے وجودی خطرہ سے مکمل طور پر نمٹنے کی ارباب اختیار کو ابھی سے تیاری کی ضرورت ہے ، دشمن پاک فوج کو کئی محاذوں پر الجھانے کی مذموم منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں، ادھر خیبر ون آپریشن کامیابی سے جاری ہے، جس سے توجہ ہٹانا ممکن نہیں، اس کے ساتھ آئی ڈی پیز کی بحالی اور علاقے میں تعمیر و ترقی کا ماسٹر پلان دینا ہے، مگر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر مکمل شکست کے ڈر سے بدامنی کی ہر ممکن کوششوں میں دہشت گردی ، تخریب کاری ، قتل و غارت اور خود کش حملوں کا سہارا لے رہے ہیں، تاہم پاکستان کی مسلح افواج نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی دم لیں گی ۔ سیکیورٹی فورسز کی 8 دنوں کی کارروائی میں 60 شدت پسند ہلاک جب کہ 25 سے زائد زخمی ہوگئے ۔ اہم کمانڈر سمیت 100سے زائد شدت پسندوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ اور تیراہ میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز کی علاقے میں پیش قدمی جاری ہے ۔

شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانے بھی تباہ کر دیے گئے ہیں ۔ آپریشن میں اب تک سیکیورٹی فورسز کے 3جوان جاں بحق جبکہ12 زخمی ہوئے ۔ علاقے میں کشیدگی کے باعث 6 ہزار خاندان محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کرچکے ہیں ۔ متعدد خاندان افغانستان کے صوبے ننگرہار بھی جا چکے ۔ حکام کے مطابق شدت پسندوں کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گا ۔ یہ طویل اور صبر آزما جنگ ہے ، ملکی سلامتی کی خاطر فوجی جوان اور افسر اپنی جانیں قربان کررہے ہیں اس لیے سیاست دانوں اور خاص طور پر ملک میں انقلاب اور نظام کی تبدیلی کی جدوجہد میں مصروف ان سیاسی قائدین کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ملک کو درپیش خارجی اور داخلی آزمائشوں کا ادراک کرتے ہوئے ملکی معیشت اور سماجی نظام کو پہنچنے والے نقصانات کو نظر انداز نہ کریں ۔

بھارت نے پاکستان کی داخلی صورتحال کا غلط اندازہ لگانے کی مہم جوئی کا آغاز سرحدی خلاف ورزیوں کی شکل میں کیا ہے ، بھارتی حکمراں پاکستان کو دھمکانے کی ڈپلومیسی پر کار بند ہیں، ادھر جنداﷲ اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے جیش العدل نے پاکستان کے سرحدی علاقے کو ٹارگٹ کیا ہے، جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر خود کش حملے کی ذمے داری جنداﷲ نے قبول کی ہے ،اس پر 10 کوہ پیماؤں کے قتل، پشاور چرچ دھماکے، کراچی کور کمانڈر پر حملے اور دیگر جارحانہ سرگرمیوں کے سنگین الزامات ہیں ۔ بلوچستان میں بظاہر دہشت گردی کم ہوئی ہے مگر وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک کا کہنا ہے کہ 3 اضلاع میں شورش ہے جب کہ ساحل مکران سمیت پنجگور ، خضدار ، مستونگ ، کوئٹہ ،اور تربت حساسیت کا الاؤ ہیں ، وہاں کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے ، ناراض بلوچ رہنماؤں کی واپسی اور ان سے نتیجہ خیز مذاکرات کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے ۔ٖ

شمالی اور جنوبی وزیرستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے فوج کو زبردست عوامی اور سیاسی حمایت حاصل تو ہے لیکن سیاسی اشرافیہ اور حکومتی اکابرین کو اپنی صفیں بھی درست رکھنی ہیں ،ملک ''ٹائٹ روپ واکنگ''کررہا ہے، منی پاکستان میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ دو فطری جمہوری شراکت دار ہوتے ہوئے بھی سندھ کی تقسیم اور نئے صوبہ کے ایشو پر باہم دست و گریباں ہیں، ادھر رینجرز نے لیاری میں مبینہ مقابلے کے دوران گینگ وار عزیر گروپ کے شوٹر سمیت 3کارندوں کو ہلاک کر کے ملزمان کے قبضے سے اسلحہ اور دستی بم برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے، فائرنگ سے پیپلزپارٹی کا سینئر عہدیدار عبدالخالق ہلاک ہوگیا جب کہ مختلف علاقوں سے خاتون سمیت 2 افراد کی لاشیں ملیں ، فائرنگ کے دیگر واقعات میں 10 افراد زخمی ہوگئے ۔ایدھی جیسی معصوم شخصیت اور عالمی شہرت کے حامل سماجی کارکن کا وقار لوٹنے کی شرمناک واردات نے مادر وطن کو بے توقیر کیا ہے۔

کہتے ہیں کہ جمہوریت کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ ملک کو وجودی خطرہ سے نکالنے میں وسیلہ بنتی ہے، جمہوریت بیسویں صدی کی نظریاتی جنگوں مین سب سے بڑی فاتح بن کر ابھری ہے۔ ارباب اختیار کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے، ملک دشمن عناصر کا گھیراؤ اور حصار توڑنے اور ہمسایوں سمیت تمام عالمی قوتوں کو یہ باور کرانے کا وقت ہے کہ پر امن اور مستحکم پاکستان قائم و دائم رہنے کے لیے بنا ہے ۔ اسے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں