ملکی مسائل اور حکومتی رویہ

عوام میں پیداہونےوالی مایوسی اورافسردگی سرکاری اداروں میں رائج کرپشن اوراشیائےضروریہ کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کاماحصل ہے۔


Editorial October 30, 2014
عوام کی یہی مایوسی دھرنوں کی صورت میں سامنے آئی اور انھوں نے تبدیلی کے نعرے بلند کیے، فوٹو: فائل

ملک بھر میں جس دھڑلے سے اشیائے خورونوش میں ملاوٹ اور غیر معیاری ادویات کا کاروبار عروج پر ہے اس سے یوں گماں گزرتا ہے کہ جیسے قانون نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ شتر بے مہار کے مصداق جس شخص کا جو جی چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ سرکاری اداروں میں جائز کام کے لیے بھی دام بنائے کام کا راج چلتا ہے۔ میرٹ میرٹ کے نعرے تو خوب بلند کیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر اس کا مظاہرہ کم ہی دکھائی پڑتا ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ اعلیٰ سطح پر ان مسائل کا علم نہیں ہے۔ ارکان اسمبلی کو بھی صورت حال کا بخوبی ادراک ہے۔ بدھ کو سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز و کوآرڈینیشن کا اجلاس ہوا جس میں ارکان کمیٹی نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں کے تعین کے لیے حکومت کی جانب سے پرائسنگ فارمولا نہ بنائے جانے کے باعث ادویہ ساز کمپنیاں اپنی مرضی سے آئے روز قیمتیں بڑھا دیتی ہیں جس سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جس پر وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز کوآرڈینیشن کے سیکریٹری نے بتایا کہ حکومت نے واضح ہدایات دے رکھی ہیں کہ ملک میں ادویات کی قیمتیں نہیں بڑھائی جا سکتیں جب کہ ادویات کے پرائسنگ فارمولے کی تیاری کا عمل جاری ہے' ہم ایسا پرائس میکانزم بنانا چاہتے ہیں جس میں عوام اور ادویہ ساز کمپنیوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔ سینیٹر کریم خواجہ نے توجہ دلائی کہ ایسی نشہ آور ادویات مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن کے استعمال سے لوگ ہارٹ اٹیک سے مر جاتے ہیں' ایسی ادویات کے استعمال کی فروخت روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

عوام کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے لیکن اس جانب برائے نام توجہ دی جا رہی ہے۔ ملک میں سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ان اسپتالوں میں غریب مریضوں کو ادویات ملتی ہیں اور نہ ہی علاج کی مناسب سہولتیں دستیاب ہیں۔ ادھر مارکیٹ کی حالت یہ ہے کہ ایک دوائی کی قیمت آج کچھ ہے تو ایک ہفتے کے بعد اس کی قیمت کچھ اور ہو گی۔ یہی حال دیگر اشیاء ضروریہ کا ہے۔ یہ تو کہہ دیا گیا ہے کہ حکومتی ہدایت کے مطابق ادویات کی قیمتیں نہیں بڑھائی جا سکتیں مگر سوال یہ ہے کہ جو قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں وہ سب کس کے ایما پر ہو رہا ہے ، ان کے انسداد کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں اور ادویہ ساز کمپنیوں کے خلاف کیا کارروائی روبہ عمل لائی گئی ہے۔

ادویات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ارکان کو بھی اس کرپشن کا بخوبی علم ہے مگر انھوں نے بھی اس مسئلے کی جانب سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ سینیٹ کی کمیٹی ہو یا قومی اسمبلی کی کمیٹی' ان کے اکثر اجلاس ہوتے رہتے ہیں لیکن وہاں جو باتی ہوتی ہیں ان پر قانون سازی کم ہی ہوتی ہے اور اسی لیے معاملات جوں کے توں چلتے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ ایک جانب ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب وہ بھی غیر معیاری اور جعلی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت سینیٹ قائمہ کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے اس مسئلے کو حل کرنے پر توجہ دے گی' شاید ایسا نہ ہو کیونکہ حکومت کو تمام خرابیوں کا بخوبی علم ہے اور اس نے کبھی سسٹم کو بہتر بنانے اور تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

عوام میں پیدا ہونے والی مایوسی اور افسردگی سرکاری اداروں میں رائج کرپشن اور اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی مہنگائی ہی کا ماحصل ہے۔ عوام کی یہی مایوسی دھرنوں کی صورت میں سامنے آئی اور انھوں نے تبدیلی کے نعرے بلند کیے۔ حکمران اپنا اقتدار بچانے کے لیے تمام حربے اور وسائل تو بروئے کار لائے اور پارلیمنٹ کے طویل اجلاس تک طلب کر لیے مگر ان کی جانب سے سسٹم میں تبدیلی کے لیے کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ اہل اقتدار کی یہ روش عوام میں مزید مایوسی کا باعث بن رہی ہے۔ ملک میں کوئی زلزلہ یا سیلاب آئے یا سیاسی بحرانی کیفیت جنم لے اس عفریت سے نجات پانے کے لیے حکومت وقتی طور پر تو اقدامات کرتی ہے مگر اس کے مستقل حل کے لیے کوئی پالیسی تشکیل نہیں دیتی۔

حکومت کی انھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں نے عوام کے مسائل میں اضافہ کیا اور ان کا اشتعال دھرنوں، جلسے جلوسوں اور احتجاج کی صورت میں سامنے آ رہا ہے مگر اہل اقتدار یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہے اور ہر بحرانی کیفیت کا اپنے مخالفین اور ناقدین ہی کو مورد الزام ٹھہرانا انھوں نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے لیکن انھیں اس حقیقت کا جلد ادراک کر لینا چاہیے کہ عوام کا شعور بلند ہو چکا ہے اور اب انھیں صرف نعروں کے لالی پاپ سے نہیں بہلایا جا سکتا بلکہ ان کے مسائل کے حل کے لیے حقیقی معنوں میں اقدامات کرنا ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سسٹم میں موجود خامیوں کو ختم کرے۔ ایسی قانون سازی کی جائے جس کے ذریعے کرپشن کا بھی خاتمہ ہو سکے اور معیشت میں بھی بہتری آئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں