افغان صدر کا دورہ چین اور اس کے اثرات

افغانستان کو دوبارہ عدم استحکام سے دوچار ہونے سے بچانے کے لیے عالمی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔


Editorial November 02, 2014
اب افغانستان کے حالات میں واضح تبدیلی آ چکی ہے اور وہ رفتہ رفتہ بہتری کی جانب رواں ہے، فائل فوٹو

نئے افغان صدر اشرف غنی صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے سب سے پہلے سرکاری غیر ملکی دورے پر چین پہنچ گئے جہاں چینی دارالحکومت بیجنگ میں ''افغانستان میں امن اور تعمیر نو'' کے موضوع پر عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ افغان صدر سے ملاقات میں چینی وزیر اعظم نے کہا کہ چین کو یقین ہے کہ افغانستان اپنے مسائل خود حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اس کے ہمسایوں کو اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کیے بغیر پرامن ماحول پیدا کرنا چاہیے۔

واضح رہے افغانستان کے پڑوسی ممالک میں پاکستان اور ایران کے علاوہ خود چین بھی شامل ہے۔ چینی رہنما نے مزید کہا کہ دنیا افغانستان کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی وحدت کا احترام کرے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرے۔ چینی وزیر اعظم کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف کا روئے سخن امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کی طرف بھی تھا جنھوں نے جنگ عظیم دوئم کے بعد سے افغانستان کو ''دی گریٹ گیم'' کا میدان جنگ بنا رکھا ہے۔ 80ء کی دہائی میں سوویت روس کی افغانستان پر فوج کشی کو بھی اسی گریٹ گیم کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جس کا آغاز 40ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ نائن الیون کے بہانے یہاں پر زبردست فوج کشی کی گئی اور کارپٹ بمباری سے افغانستان کو تورا بورا بنا دیا گیا۔ اب ایک طویل مدت کے بعد افغانستان میں قیام امن کی کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔

چینی وزیر اعظم نے افغان صدر سے ملاقات میں افغانستان کے لیے 245 ملین (یعنی چوبیس کروڑ پچاس لاکھ) ڈالر کی امداد کا اعلان کیا جو اگلے تین برسوں میں فراہم کی جائے گی۔ اب افغانستان کے حالات میں واضح تبدیلی آ چکی ہے اور وہ رفتہ رفتہ بہتری کی جانب رواں ہے۔ نئے صدر اشرف غنی کی جانب سے کی جانے والی حالیہ کوششیں اس امر کی غماز ہیں کہ افغانستان میں جلد ہی استحکام پیدا ہو جائے گا اور وہ ابتری کے دور سے نکل جائے گا۔ اگرچہ وہاں طالبان اب بھی ایک بڑی قوت کے طور پر موجود ہیں اور سیکیورٹی اداروں پر حملے کر رہے ہیں لیکن افغان وزیرخارجہ ضرار احمد عثمانی کا کہنا ہے کہ ساڑھے تین لاکھ فوج ملک کی سلامتی کی ذمے داری سنبھالنے کے لیے تیار ہے اور ملک کا 90 فیصد رقبہ اب افغان فوج کے کنٹرول میں ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کا براہ راست نام لے کر انھیں امن مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی لیکن انھوں نے کوئی مخصوص تجویز یا حل پیش نہیں کیا بلکہ یہ عندیہ دیا کہ حکومتی سیکیورٹی فورسز کارروائیوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ صدر اشرف غنی نے کہا: 'امن ہماری اولین ترجیح ہے، ہم سیاسی حزب اختلاف خاص کر طالبان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ افغان بات چیت کے عمل میں شامل ہوں اور ہم اپنے تمام بین الاقوامی اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں سربراہی اور قیادت میں امن کے عمل کو آگے بڑھائیں۔ موجودہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان فورسز اب مضبوط اور طالبان کمزور ہو رہے ہیں۔

طالبان کے لیے افغان فورسز کو شکست دینا اور حکومت پر دوبارہ قبضہ کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ امریکی نیٹو فورسز افغانستان سے جا رہی ہیں مگر ان کا ایک حصہ وہاں مستقل موجود رہے گا۔ اب چین بھی افغانستان میں داخل ہو چکا ہے۔ ایسی صورت میں کسی بھی بیرونی قوت کے لیے طالبان کی بطور حکومت مخالف کے حمایت کرنا مشکل امر ہو گا۔ اب طالبان کو بھی بدلتے حالات کا ادراک کر لینا چاہیے اور افغان صدر اشرف غنی کی مذاکرات کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے حکومت میں شریک ہو جانا چاہیے۔ افغانستان میں تعمیر نو کے نئے منصوبے شروع ہو رہے ہیں۔ چینی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ چین افغانستان کے ساتھ انفرااسٹرکچر کی تعمیر، زراعت، صاف پانی کی فراہمی اور قدرتی وسائل کی تلاش کے لیے دوطرفہ تعاون کو فروغ دے گا۔ دریں اثنا چینی وزیر خارجہ وینگ ای نے کہا ہے کہ کانفرنس میں شریک ممالک نے افغانستان میں تجارت، انویسٹمنٹ، انفرااسٹرکچر، تعلیم، ڈیزاسٹر مینجمنٹ سمیت 64 مختلف پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان پروگراموں سے افغانستان میں ترقی ہو گی۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے لیے امن اور تعمیر نو کی عالمی کانفرنس کامیاب رہی۔ تاہم افغان وزیر خارجہ کا یہ بیان تھوڑی سی مبالغہ آرائی سے مبرا نہیں کیونکہ وہاں طالبان کی کارروائیاں بھی وقفے وقفے سے جاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغان صدر نے طالبان سے امن مذاکرات کی بات کی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے یہ لازم ہے کہ وہاں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کی جانی چاہیے جس میں تمام اسٹیک ہولڈروں کو مساویانہ شراکت کا احساس ہو۔ دریں اثنا واشنگٹن سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان بے حد عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔

افغانستان کو دوبارہ عدم استحکام سے دوچار ہونے سے بچانے کے لیے عالمی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ افراتفری کا شکار افغانستان پورے خطے کے امن و امان کے لیے خطرہ ہے۔ بہرحال افغانستان کے صدر کا عوامی جمہوریہ چین جانا اہم پیش رفت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں چین کا اثر بڑھے گا۔ پاکستان کو اس نئی تبدیلی یا پیش رفت کو سامنے رکھنا چاہیے اور بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنی پالیسی تشکیل دی جانی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں