بات کچھ اِدھر اُدھر کی رشتوں کی اہمیت اور نئی نسل

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ان رشتوں کی ڈور سےاحسن اندازسے بندہے رہیں تو ہمیں اپنے لہجوں میں لچک دکھانا ہو گی۔


اسامہ سرور November 07, 2014
قطعہ تعلق کی بڑہتی ہوئی روش کو روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر یہ روش چلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بہت نزدیکی رشتہ دار جیسے بھائی بہن وغیرہ کے بارے میں بھی ہمارے یہی خیالات ہوں گے اور ہم انہیں بھی کھو دیں گے۔ فوٹو: فائل

ارے! ابہی پچھلے ہفتے ہی تو ماموں اور ان کے بچے آئے تھے۔ اب پھر آ رہے ہیں ۔۔۔ ؟؟؟

اُف الله! میری شادی کی اتنی جلدی تو میرے والدین کو نہیں جتنی میری پھوپھوکو ہے، اپنی بیٹیاں تو نظر آتی نہیں انہیں ۔۔۔

کیا۔۔۔ ؟؟؟ ملتان والے چچا اور ان کے بچے گرمیوں کی ساری چھٹیاں ہمارے ہاں گزاریں گے ؟

میں کیا کروں گا تایا کی بیٹی کی سالگرہ میں جا کر، بور ہونے سے بہتر ہے میں دوستوں کے ساتھ باہر چلا جاؤں کچھ دیر۔

درج بالا چند ایسے جملے ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ ہمیں اپنے گھروں میں سننے کو ملتے ہیں اور روز بروز ان کے استعمال میں اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہاں میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اس تحریر کا مقصد قطعاً یہ پیغام دینا نہیں کہ ہم نوجوان بالکل ہی اپنے رشتہ داروں کی طرف اپنے فرائض سے غافل ہیں، بلکہ اس کا مقصد ان بے پرواہ اور خود پرست رویّوں کی نشاندہی ہے، جو کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمارے معاشرے میں پنپتے جارہے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ آجکل کے تیز رفتار دور میں بہت مشکل ہے کہ ان رشتوں کیلئے وقت نکالا جائے، لیکن ایک اوربات جو بہت اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ زندگی میں رونق بھی انہی سب رشتوں کی وجہ سے ہے۔ آجکل تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وقت ہو بھی تو ہم ان رشتوں کووقت دینا گوارا نہیں کرتے۔ ہم نے نہ جانے کیوں ان رشتوں کو بوجھ سمجھ لیا ہے اور اپنی زندگیوں کو صرف اپنے آپ تک محدود کر لیا ہے۔ ان سب رشتوں سے کترانے کی ایک وجہ شاید کچہھ رشتہ داروں کے بے جا سوالات اور تنقید ہیں جو اکثرہماری نوجوان نسل کو نہیں بہاتے۔ علاوہ ازیں، اپنے کسی بچے کی غلطی پرکسی دوسرے کو مورودِالزام ٹھرانا اور ساری خامیاں دوسروں کے بچوں میں ہی دینا بھی ان رشتوں سے دوری کی ایک وجہ ہے۔ ایسی ہی کچھ اور جلی کٹی اور نتیجتاً لوگ کنارا کشی کوہی بھلائی سمجھتے ہیں۔

مگر اسی بات کا دوسرا پہلو یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ رشتہ داراگر کچھ کہہ بھی دیتے ہیں تو کیا ہوا، ہمارے بڑے ہی تو ہیں، یا پھر کسی کی عادت ہوتی ہے روک ٹوک کرنا لیکن وہ دل کے برے نہیں ہوتے۔ یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کس نظریے سے سوچتے ہیں۔ اکثرلوگ اس لیے کنارا کرتے کی وہ اپنے رشتہ داروں سے کٹنا تو نہیں چاہتے مگر وہ محض ایک بحث اور غیر ضروری تنقید سے بچنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی نیّت صاف ہوتی ہے، لیکن انجانے میں وہ بہت دور نکل جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کے روابط اپنوں سے ختم ہو جاتے ہیں اور وہ بالکل اپنے رشتہ داروں سے کٹ جاتے ہیں۔

جیسا کہ اوپر یہ تفصیلاً بیان ہو چکا ہے کہ یہ کٹاؤ دانستہ و غیردانستہ دونوں صورتوں میں ممکن ہے، مگرغور طلب بات یہ ہے کہ کیا کناراکشی اور سب سے کٹ جانا ہی اس مسئلے کا حل ہے ؟ بڑے مسائل ایک طرف لیکن کیا مندرجہ بالا کا حل صرف قطعہ تعلقی ہے ؟ ہرگز نہیں ۔۔۔ !!!

اس قطعہ تعلق کی بڑہتی ہوئی روش کو روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر یہ روش چلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بہت نزدیکی رشتہ دار جیسے بھائی بہن وغیرہ کے بارے میں بھی ہمارے یہی خیالات ہوں گے اور ہم انہیں بھی کھو دیں گے۔ اس ضمن میں ایک اہم نکتہ ہماری برداشت کا درجہ بھی ہے جو کہ روزبروز کم ہوتا جا رہا ہے، جو کہ اپنوں سے دوری کی بڑی وجہ ہے۔ ہم خود جو بھی کریں وہ سہی لگتا ہے لیکن کسی دوسرے کی ذرا سی تنقید یا ہمارے مزاج کے خلاف بات ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کا میرے نزدیک ایک ہی حل ہے؛ ہمارے رویّوں میں تبدیلی!

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ان رشتوں کی ڈور سےاحسن اندازسے بندہے رہیں تو ہمیں اپنے لہجوں میں لچک دکھانا ہو گی اور چھوٹی چھوٹی باتیں نظر انداز کرنے کی ہمّت پیدا کرنا ہو گی، ورنہ مغربی اقوام کی طرح ہم بھی صرف اپنے آپ تک محدود ہو کر رہ جائیں گےاور ہماری آنے والی نسلیں سرے سے ہی ان رشتوں کی اہمیت سے ناواقف ہوں گی اور پھر شاید کسی تقریب میں ہی رشتہ داروں سے ملاقات ہوا کرے یا شاید وہ بھی نہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں