سیاسی محاذ پر گرما گرمی

سیاسی محاذ پر گرماگرمی موجود ہے، اگر حکومت نے گرفتاریوں کا عمل شروع کیا تو اس سے صورت حال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔


Editorial November 13, 2014
ملک میں جمہوریت کو بچانے کے لیے صبر و تحمل پہلی شرط ہوتی ہے, فائل فوٹو

ملک میں 14 اگست کو شروع ہونے والے سیاسی بحران کو تقریباً 3 ماہ ہو گئے' ان تین ماہ میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اسلام آباد میں دھرنے دیے' حکومت پربہت زیادہ دباؤ بڑھا۔ عمران خان اور طاہر القادری کا مطالبہ تھا کہ وہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے استعفیٰ کے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے' پاکستان کی تاریخ میں ایسے دھرنے پہلی بار دیکھنے میں آئے تھے' فریقین کے درمیان مذاکرات کے دور بھی چلتے رہے لیکن بحران جوں کا توں رہا' پھر عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری نے دھرنا ختم کر دیا۔

اس کے بعد ایسا لگا کہ دھرنوں سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران ختم ہو گیا لیکن تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے تاحال دھرنا جاری رکھا ہوا ہے' وہ ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں سے خطاب بھی کر رہے ہیں اور ان میں خاصی تند وتیز زبان بھی استعمال ہورہی ہے۔ جب تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری نے دھرنا ختم کیا تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید دھرنوں سے پیدا ہونے والا سیاسی بحران ختم ہو گیا ہے۔ حکومت اور اس کے وزراء نے بھی ایسا ہی تاثر دیا جیسے اب اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی یہی رائے قائم کی کہ شاید بحران ختم ہو گیا ہے لیکن اب سیاسی منظرنامے میں ایسی تبدیلیاں سامنے آ رہی ہیں جن سے یہ لگتا ہے کہ سیاسی بحران تاحال جاری ہے اور اس میں شدت آنے کا امکان ہے۔

انسداددہشت گردی کی وفاقی عدالت نے اسلام آباد پولیس کی درخواست پر پارلیمنٹ اورپی ٹی وی حملہ کیس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، شاہ محمودقریشی، اسدعمراور رحیق عباسی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ ملزموں کو گرفتار کرکے آیندہ سماعت پر پیش کیا جائے۔ ملزمان کے خلا ف مقدمہ تھانہ سیکریٹریٹ میں درج ہے جس میں وہ مفرور ہیں ۔

بی بی سی کے مطابق پولیس کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیاکہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی اور پارلیمنٹ ہاؤس پر حملہ کیا اور ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا، مقدمے میں کچھ افراد کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے دوران تفتیش بتایا کہ اْنھوں نے ان عمارتوں پر حملہ اپنے قائدین کی ہدایت پر کیا، جب تک اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاتا انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کی لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جو بہت جلد اپنا کام شروع کردیں گی۔ عمران خان کے خلاف کسی بھی عدالت نے پہلی مرتبہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں جب کہ طاہرالقادری کے خلاف گوجرانوالہ کی انسداد دہشتگردی کی عدالت پہلے بھی وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے۔ اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے خلاف9سے زائد مقدمے درج ہیں۔ ادھر پی ٹی آئی کی سیکریٹری اطلاعات شیریں مزاری نے کہا ہے کہ وارنٹ غیر قانونی ہیں۔ پی ٹی آئی کا حملے سے کوئی تعلق نہیں،حکومت عمران خان کوپکڑنے کی بھول نہ کرے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف اور شہبازشریف قتل کے ملزم ہیں ،ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیوں نہیں ہوئے؟

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہاہے کہ انھیں اسلام آباد پہنچنے پر ورانٹ گرفتاری کی خوشخبری ملی، تحقیقات سے ثابت ہو جائے گا کہ پی ٹی وی پر حملے کا میچ فکس تھا، گرفتاری کے لیے حاضر ہوں ضمانت نہیں کراؤں گا، جب چاہو گرفتار کر لو، نیا پاکستان بننے تک دھرنا جاری رہیگا۔ان معاملات اور حالات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سیاسی محاذ پر گرماگرمی موجود ہے' اگر حکومت نے گرفتاریوں کا عمل شروع کیا تو اس سے صورت حال مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے' بہر حال یہ عدالتی معاملات ہیں اور ان پر آئینی و قانونی طریقہ ہی اختیار کیا جانا چاہیے لیکن حالات کے تیور سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں معاملات بگڑ سکتے ہیں۔

خدشہ یہ ہے کہ کہیں ملک میں ایجی ٹیشن نہ شروع ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے جمہوری نظام پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ ملک میں جمہوریت کو بچانے کے لیے صبر و تحمل پہلی شرط ہوتی ہے۔ جب سے موجودہ سیاسی بحران شروع ہوا ہے' فریقین کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اگر حکومت بامعنی مذاکرات کی سمت میں قدم بڑھاتی اور تحریک انصاف کی قیادت بھی معاملہ فہمی دکھاتی تو بحران سے نکلا جا سکتا تھا۔

اب معاملات زیادہ بگڑتے نظر آ رہے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے قائد عمران خان وزیراعظم کے استعفے سے پیچھے ہٹتے نظرآ رہے ہیں تاہم الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے وہ آزادانہ تحقیقات کے مطالبہ پر قائم ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں پیش رفت کرے اور الیکشن میں دھاندلی کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنا دے تاکہ ملک میں جاری بحران ختم ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں