پاک افغان معاہدے دوستی کی جانب اہم پیشرفت

دونوں ممالک کاروشن مستقبل آپس میں جڑاہواہےاوراسکی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ دونوں کےحال اورمستقبل کےلیےضرررساں ثابت ہوگی


Editorial November 16, 2014
افغان صدر اشرف غنی کا دورہ پاکستان کے لیے بہتر تعلقات کا پیغام ثابت ہوا ہے، فائل فوٹو

لاہور: افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور دونوں ممالک میں پہلی بار وسیع پیمانے پر مختلف نوعیت کے معاہدے طے پائے ہیں جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کا روشن مستقبل آپس میں جڑا ہوا ہے اور اس کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ دونوں کے حال اور مستقبل کے لیے ضرر رساں ثابت ہوگی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بارڈر سیکیورٹی' دفاع' افغانستان کی تعمیر نو' بحالی' استعداد کار میں اضافہ' پارلیمانی تبادلوں اور ثقافتی' تعلیمی اور کھیلوں کے روابط سمیت تمام شعبوں میں باہمی تعاون کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ماضی میں کوئی زیادہ خوشگوار نہیں رہے لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ نئی افغان حکومت کا وژن ماضی کی حکومتوں بالخصوص کرزئی حکومت سے قطعی طور پر مختلف ہے اور اسے احساس ہے کہ افغانستان کی ترقی اور استحکام کا دارومدار ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات پر ہے۔ جس کا اظہار افغان صدر اشرف غنی کی ان باتوں سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ہمیں ماضی کو بھول جانا اور مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے' انھوں نے تجارت سے متعلق حالیہ سمجھوتے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 13 سال کا سفر تین دن میں طے ہو گیا' دونوں ممالک غربت اور پسماندگی کے خاتمے پر متفق ہیں دونوں کو ماضی بھلا کر آگے بڑھنا ہو گا۔

افغان صدر اشرف غنی کا دورہ' پاکستان کے لیے بہتر تعلقات کا پیغام ثابت ہوا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اگلے روز اسلام آباد میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ون آن ون ملاقات کی جس کے بعد دونوں رہنمائوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ وہ اشرف غنی کو ان کے دوسرے گھر پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں' مستحکم افغانستان کے لیے افغان حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے' پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے' دونوں ممالک کی امن و سلامتی ایک دوسرے سے منسلک ہے' دونوں کا حال اور مستقبل آپس میں جڑا ہوا ہے' دونوں کو سیکیورٹی نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے' تاپی اور کاسا پراجیکٹس سے دونوں ممالک میں معاشی ترقی اور خوشحالی آئے گی۔

دونوں ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مل کر نمٹیں گے اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے جب کہ افغانستان نے ملٹری ٹریننگ کے لیے پاکستان کی پیشکش قبول کر لی ہے جس کے تحت پاکستان افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کرے گا تاہم اس کا طریقہ کار بعد میں طے کیا جائے گا۔ پاکستان کو ایک جانب جہاں داخلی طور پر دہشت گردی کا سامنا ہے وہاں اسے افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان نے کئی بار افغان حکومت سے اس سلسلے میں احتجاج بھی کیا اور اسے دہشت گردوں کی دراندازی روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا کہا مگر ماضی کی کرزئی حکومت دہشت گردوں کو روکنے کے بجائے الٹا پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ شروع کرتی رہی۔ یہ بات بھی کئی بار منظر عام پر آئی کہ افغانستان کے اندر بھارت نے دہشت گردوں کو تربیت دینے کے لیے ٹریننگ کیمپ قائم کر رکھے ہیں جس کا مقصد پاکستان میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنا اور دہشت گردی کو فروغ دینا ہے۔

بلوچستان میں ہونے والی گڑ بڑ میں بھی بھارتی ہاتھ ملوث ہے، پاکستان اس کے ثبوت بھی فراہم کر چکا ہے۔ افغان انتظامیہ کے اندر ایسے عناصر اب بھی موجود ہیں جو کرزئی حکومت کی پاکستان مخالف پالیسیوں کے حامی ہیں۔ اب اگر نئی افغان حکومت نے خطے میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے اسی صورت پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے جب حکومت دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے داخلی اور خارجی تمام عناصر کا قطعی طور پر قلع قمع کرے۔

افغان حکومت بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات ضرور قائم کرے مگر یہ پاکستان دشمنی یا پاکستان کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں ہونے چاہئیں۔ افغانستان کو اب بھارت پر دو ٹوک واضح کرنا ہو گا کہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے کسی قسم کے تربیتی کیمپ قائم نہیں ہونے دے گا اور اگر ماضی میں ایسا ہوتا بھی رہا ہے تو اب وہ اسے مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ افغان صدر اشرف غنی کے اب تک کیے جانے والے اقدامات سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ سابق افغان حکومت کی نسبت قطعی طور پر مختلف ویژن رکھتے اور خطے کو ترقی دینے کے لیے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے کٹھن چیلنجز سے نمٹنے کا عزم رکھتے ہیں، وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں انھوں نے چین کا دورہ بھی اسی تناظر میں کیا اور اب ان کا پاکستان کا دورہ بھی بہتر تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ مستقبل میں اپنی پالیسیوں کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کا درد ایک ہے پاکستان کے ساتھ شراکت داری افغان خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے' گزشتہ تین دنوں کے دوران اٹھائے گئے کئی اقدامات میں گزشتہ کئی برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان روابط میں حائل رکاوٹوں پر قابو پایا ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے بہت سے مسائل مشترکہ ہیں دونوں ممالک کی سلامتی کو دہشت گردوں سے خطرہ ہے اور اس خطرے کا بروقت ادراک کرتے ہوئے دونوں نے اس سے مل کر نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان کے راستے ہونے والی اسمگلنگ بھی ایک اہم مسئلہ ہے اس سے پاکستان کی تجارت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں منشیات کا کاروبار کرنے والا مافیا خاصا طاقتور ہے اور اس نے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی متاثر کیا ہے۔

افغان حکومت کو ان امور پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی روابط کو تقویت دینے کے لیے بینکنگ سیکٹر کو بھی فروغ دینا ہو گا۔ پاکستان افغانستان میں اور افغانستان پاکستان میں اپنے بینک قائم کرے اس سے بھی دونوں ممالک کے تاجروں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی اس کے علاوہ آگے بڑھتے ہوئے اگر مشترکہ تجارتی منڈیاں اور مشترکہ چیمبرز آف کامرس بھی قائم کر دیے جائیں تو اس سے تجارتی تعلقات مزید بہتر ہو جائیں گے اور دونوں ممالک کے درمیان خوش حالی کا نیا دور شروع ہو گا جس سے دہشت گردی کے اثرات بھی کمزور پڑتے جائیں گے۔

وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات اور باہمی رابطوں کو فروغ دینے کے لیے افغانستان پاکستان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک نے ایک مشترکہ ویژن پر اتفاق کیا ہے جو ایشیائی ہم آہنگی کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جانب رہنمائی کر سکتا ہے' اس سے جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کو باہم ملانے میں مدد ملے گی۔ پاکستان اور افغانستان کو اپنے بہتر تعلقات کی راہ میں حائل ان رکاوٹوں اور عناصر پر بھی کڑی نظر رکھنا ہو گی جن کے مفادات دونوں ممالک کی دوستی سے میل نہیں کھاتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں