سیاسی بحران میں بڑھتی ہوئی تلخی

ملکی سیاست میں جب لڑائی جھگڑے اور جلاؤ گھیراؤ کا ماحول بن جاتا ہے تو پھر جمہوریت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔


Editorial November 17, 2014
ملکی معیشت اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہی جس سے اسے کرنی چاہیے۔ غربت اور بے روز گاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، فائل فوٹو

WASHINGTON: ملک کے سیاسی محاذ پر تاحال تلخی اور گرما گرمی کا ماحول ہے۔ تحریک انصاف کا اسلام آباد میں دھرنا بدستور جاری ہے اور وہ مختلف شہروں میں جلسے بھی کر رہی ہے۔ ادھر تحریک انصاف کے قائدین اور ڈاکٹر طاہر القادری پر مقدمہ کا معاملہ بھی موجود ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان تناؤ میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے۔ فریقین کے درمیان تندوتیز اور تلخ بیانات کی جنگ جاری اور ایک دوسرے پر الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔

گزشتہ روز جہلم میں تحریک انصاف کی ریلی پر فائرنگ بھی ہوئی۔ جہلم کے جلسہ عام میں تحریک انصاف کے قائد عمران نے اعلان کیا ہے کہ 30 نومبر کو اسلام آباد میں فیصلہ کن جنگ ہوگئی، نواز شریف آخری غلطیاں کر رہے ہیں، دھرنا ناکام بنانے کے لیے آئی بی کو 270 کروڑ روپے دیے، 30 نومبر کو معاملات ان کے قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ میں 21 نومبر کو لاڑکانہ آ رہا ہوں۔ 94 دن سے دھرنے میں بیٹھا ہوں، تب تک دھرنا ختم نہیں کروں گا، جب تک انتخابات میں دھاندلی کروانے والوں کو سزا نہیں دلوا لیتا، انصاف کے لیے میں 90دن اور بھی دھرنے میں بیٹھا رہوں گا۔

ادھر وفاقی وزیراطلاعات سینٹر پرویز رشید نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے30نومبر کو اسلام آباد میں دہشتگردی کا تہیہ کررکھا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے کچھ دہشتگردوں کے ساتھ رابطے کی بھی کوشش کی ہے، 30نومبرکو کچھ ہوا تو اس کی ذمے داری انھیں قبول کرنا ہوگی۔

مئی 2013 کے الیکشن کے نتیجے میں موجودہ حکومتی سیٹ اپ قائم ہوا تو ملک کے سنجیدہ اور فہمیدہ حلقوں کو امید ہوئی تھی کہ اب ملک صحیح راستے پر چل نکلا ہے کیونکہ پاکستان میں پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد انتخابات جیتنے والی جماعت کو اقتدار منتقل کیا تھا' یہ اچھی پیش رفت تھی لیکن پھر الیکشن میں دھاندلی کی باتیں ہونا شروع ہو گئیں ۔دھاندلی کی بات پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں بھی دبے دبے لفظوں میں کرتی رہیں۔

آصف زرداری نے بھی اس جانب اشارہ کیا لیکن سب نے نتائج کو تسلیم کر لیا۔تحریک انصاف قائد عمران خان چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے لیکن اس معاملے کو حل کرنے کی جانب کسی نے توجہ نہ دی۔یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ نوبت دھرنوں تک پہنچ گئی۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک اور ان کے اتحادیوں نے 14 اگست کو لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا اور اسلام آباد میں دھرنا دے دیا' اس دوران جو واقعات ہوئے وہ سب کے سامنے ہے' پھر عوامی تحریک نے دھرنا ختم کردیا۔ اس کے بعد بھی یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید تحریک انصاف بھی دھرنا ختم کر دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

تحریک انصاف کا دھرنا بدستور جاری ہے اوروہ ملک کے مختلف شہروں میں جلسے بھی کر رہے ہیں۔ اب 30 نومبر کی تاریخ سامنے آئی ہے۔ فریقین کے تند و تیز اور تلخ بیانات سے یہ خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں معاملہ گڑ بڑ نہ ہو جائے۔ بدقسمتی سے سیاسی تنازع کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی' جس کی وجہ سے سیاسی ماحول میں تلخی اور شدت بڑھ رہی ہے۔ملک میں اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے' اس کی ساری ذمے داری اجتماعی طور پر ملک کی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔سیاسی قیادت کا امتحان ہمیشہ بحران میں ہوتا ہے۔ بحران میں پتہ چلتا ہے کہ سیاسی قیادت کس حد تک میچور اور تدبر کی مالک ہے۔

اس وقت جو صورت حال موجود ہے' اسے ڈی فیوز کرنا بھی سیاسی قیادت کی ہی ذمے داری ہے۔ ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت معاملات کو بگڑنے سے بچائے اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کر کے تلخی کو خوشگواریت میں تبدیل کرے۔ ملکی معیشت اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہی جس سے اسے کرنی چاہیے۔ غربت اور بے روز گاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی لڑ رہا ہے۔ مشرقی سرحدوں پر بھی گزشتہ دنوں اشتعال دیکھنے میں آیا ہے۔

ان حالات میں سیاسی قیادت کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اپنے اختلافات کو جمہوری دائرے میں رہ کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عجیب بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کا دھرنا تین ماہ سے جاری ہے لیکن اسے ختم کرانے کے لیے سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آئی۔ ادھر تحریک انصاف کی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں 'اور اپنے مطالبات کی فہرست کو اس طریقے سے مرتب کرے کہ حکومت کے لیے بھی سہولت پیدا ہو۔

تنازعات کو حل کرنے کے لیے کچھ لو اور کچھ دو کا اصول اپنانا پڑتا ہے ۔ضد اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں تلخی پیدا ہوتی ہے جو آگے بڑھ کر لڑائی جھگڑے کا سبب بن جاتی ہے۔ ملکی سیاست میں جب لڑائی جھگڑے اور جلاؤ گھیراؤ کا ماحول بن جاتا ہے تو پھر جمہوریت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ حکمران جماعت 'تحریک انصاف 'پیپلز پارٹی اور دیگر پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں