وزیراعظم نواز شریف کو امریکی صدر کا فون

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق صدر بارک اوباما نے یہ ٹیلی فون اپنے دورہ بھارت کے تناظر میں کیا


Editorial November 22, 2014
صدر بارک اوباما نے یقین دلایا کہ وہ صورتحال معمول پر آتے ہی پاکستان کا جلد دورہ کریں گے۔ فوٹو: فائل

امریکا کے صدر بارک اوباما نے جمعہ کی شام وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو ٹیلیفون کیا۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق صدر بارک اوباما نے یہ ٹیلی فون اپنے دورہ بھارت کے تناظر میں کیا اور اس سلسلے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو اعتماد میں لیا۔

صدر بارک اوباما جنوری میں بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کریں گے اور اس حوالے سے انھوں نے بھارتی دعوت قبول کر لی ہے، اس کے بعد انھوں نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ٹیلی فون کر کے انھیں اعتماد میں لیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے باہمی دوستانہ تعلقات، پاک امریکا دو طرفہ تعلقات اور خطے کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ پاکستان اور امریکا نے جنوبی ایشیا میں امن اور خوشحالی کے فروغ کی مشترکہ خواہش کے تحت باہمی تعلقات مزید مستحکم کرنے کے لیے رابطے قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے امریکی صدر پر زور دیا کہ وہ بھارتی قیادت کے ساتھ کشمیر کا معاملہ اٹھائیں تاکہ مسئلہ کشمیر کے جلد حل سے ایشیا میں پائیدار امن، استحکام اور اقتصادی تعاون ممکن ہو سکے ۔ پاکستان نے دوطرفہ مذاکرات کی بحالی کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت پر بھی لازم ہے کہ وہ سازگار ماحول پیدا کرے۔ وزیراعظم نواز شریف نے صدر اوباما کو واشنگٹن میں دی گئی دعوت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام مستقبل میں ان کا پاکستان میں خیرمقدم کریں گے۔صدر بارک اوباما نے یقین دلایا کہ وہ صورتحال معمول پر آتے ہی پاکستان کا جلد دورہ کریں گے۔

وزیراعظم نے رواں سال اپنے دورہ بھارت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا مقصد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو آگے بڑھانا تھا تاہم بھارت کی جانب سے خارجہ سیکریٹریوں کی سطح کے مذاکرات کی منسوخی اور کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ جیسے افسوسناک اقدامات سے یہ اشارہ ملا کہ بھارت تعلقات کو معمول پر لانے سے گریز کررہا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق اوباما نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات ایک درجہ آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔

موجودہ صورت حال میں صدر بارک اوباما کا بھارت کے دورے پر آنا خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے یہ تاثر مزید پختہ ہوتا ہے کہ امریکا اور بھارت کے درمیان قربتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ زیادہ بہتر یہ ہوتا اگر امریکی صدر پاکستان کے دورے پر بھی آتے۔اس سے امریکا کے حوالے سے پاکستان کے عوام کو اچھا تاثر ملتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات میں بھارت کو زیادہ اہمیت حاصل ہو رہی ہے۔

پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کے ناطے صدر اوباما نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو فون کر دیا ادھر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف بھی امریکا میں ہیں۔ انھوں نے اگلے روز واشنگٹن میں سی آئی اے حکام سے ملاقات کی۔ انھوں نے امریکا کی سینیٹ کمیٹی برائے امور خارجہ، آرمڈ فورسز کمیٹی اور سلیکٹ کمیٹی کے ارکان سے بھی ملاقات کی۔ خارجہ امور کمیٹی نے اعتراف کیا کہ پاک فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے۔ امید ہے کہ دہشت گردی کے خلاف طویل مدتی اور مضبوط شراکت داری جاری رہے گی۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں قابل تحسین ہیں۔

امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی اہمیت اور کردار کو بخوبی سمجھتا بھی ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر وہ افغانستان میں کامیاب نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود امریکی پالیسی ساز اس خطے میں بھارت کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد صدر اوباما کو بخوبی علم ہوگیا ہے کہ بھارت خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر بات چیت بحال کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور وہ کنٹرول لائن پر بھی کشیدگی پیدا کرتا رہتا ہے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی امریکی پالیسی سازوں کو کنٹرول لائن پر کشیدگی کی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ یوں امریکی انتظامیہ اچھی طرح آگاہ ہے کہ بھارت اس خطے میں کیا گیم کھیل رہا ہے۔ بھارتی انتظامیہ صدر امریکا کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرے گی۔ ایسے موقع پر پاکستان کو صورت حال پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ پاکستان میں سیاسی بے چینی اور دھرنوں کی وجہ سے عوامی جمہوریہ چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا تھا اور وہ سری لنکا اور بھارت کا دورہ کر کے بیجنگ چلے گئے تھے۔

اس دورے سے پاکستان کا امیج متاثر ہوا جسے بعد میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے بیجنگ کا دورہ کر کے بہتر بنایا۔ اب پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں جاری سیاسی بحران پر قابو پائے۔ اس وقت پورے ملک میں جلسے ہو رہے ہیں' ایسا لگتا ہے کہ جیسے الیکشن کا ماحول ہے۔ عمران خان نے لاڑکانہ میں جلسہ کیا۔ لاہور میں جماعت اسلامی کا اجتماع ہو رہا ہے۔ بہاولپور میں مسلم لیگ ق نے جلسہ کیا۔ یہ صورت حال اچھی نہیں ہے۔ پاکستان کی حکومت اگر امریکا کے صدر کو پاکستان لانا چاہتی ہے تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا ہو۔ اگر سیاسی بحران یا بے چینی جاری رہی تو طاقتور اقوام کے سربراہان حکومت یا سربراہان مملکت پاکستان کا دورہ کرنے سے ہچکچاتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں