چیف الیکشن کمشنر کا تقرر تاخیر کیوں

آئین کے تحت حکومت کو اپوزیشن سے مشاورت کےبعد چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں کسی وہم وگمان کےمخمصے میں نہیں پڑنا چاہیے۔


Editorial November 26, 2014
چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت دیگر اہم مسائل کے حل کی طرف جلد سے جلد پیش قدمی کرنی چاہیے تاکہ کسی قسم کے ڈیڈ لاک کی صورت پیدا نہ ہو. فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنرجسٹس انور ظہیر جمالی کی خدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس ناصرالملک نے جسٹس انورظہیر جمالی کی خدمات واپس لینے کا حکم دیا ہے، یہ حکم5 دسمبر سے نافذالعمل ہوگا، سیکریٹری الیکشن کمیشن کو اس بارے میں آگاہ کردیا گیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے تو کہا تھا کہ 24نومبر تک تقرری کردی جائے گی، یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں جس میں تاخیرکی جارہی ہے اگر ایک عہدے کے لیے یہ حال ہے توباقی معاملات کیسے چلیں گے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت اور ثابت شدہ صداقت ہے کہ جمہوری نظام میں شفاف ،آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی ضمانت آئین کے دیے گئے اختیارات کے تحت قائم ایک خود مختار ، غیر جانبدار، شفاف اورمضبوط الیکشن کمیشن ہی دیتا ہے جس کے انتظامات کی نگرانی ہر قسم کے سیاسی ، سماجی، ادارہ جاتی داخلی وخارجی دباؤ سے آزاد چیف الیکشن کمشنر کے سپرد ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عدالت عظمیٰ کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے اجکامات پر اصرار جمہوری نظام کی روح کے مطابق ہے۔ حکمرانوں کو سپریم کورٹ کی احکامات پر حرف با حرف عمل کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے ۔

عدالتی اعلامیے کے مطابق حکومتی وضاحتیں مسترد اس لیے کی گئیںکہ ارباب اقتدار عدالتی احکام کو سنجیدہ نہیں لیتے، اٹارنی جنرل کا یہ استدلال کہ اپوزیشن لیڈر علاج کے لیے بیرون ملک ہیں ، حکومت مخلصانہ کوشش کررہی ہے،عدلیہ کو قائل نہ کرسکا کیونکہ یہ اکیسویں صدی ہے،سائنس وٹیکنالوجی اور مواصلات و فوری ابلاغ کا زمانہ ہے،جس میں مشاورت بقول چیف جسٹس ایک دن میں بھی کی جاسکتی ہے، بادی النظر میں یہ کوئی ناقابل عمل عدالتی حکم نہیں بلکہ جسٹس گلزار احمد کے بقول جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ مثلاً قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو فون کیا جاسکتا ہے، فی زمانہ سپر پاورز طاقتوں کے مابین اور انتہائی اہم سیاسی و عسکری مہم حتیٰ کہ اعلان جنگ تک صرف ایک فون کال کی محتاج ہوتی ہے، چہ جائیکہ ایک چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کوکھل جا سم سم یا طلسم ہوشربا کی شکل دی جا رہی ہے، جس سے قومی سیاسی و سماجی حلقوں اور عالمی برادری میں اچھا پیغام نہیں جائے گا۔

حقیقت میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کی تنہا ذمے داری صرف حزب اقتدار کی نہیں ہے بلکہ حزب اختلاف کو بھی سرعت اور پوری دلچسپی اور آئینی تقاضوں کے مطابق اس کام کی انجام دہی کے لیے سیاسی حالات کی گمبھیرتا کا احساس کرنا چاہیے اور جس نام پر اتفاق رائے ہو اس سے سپریم کورٹ کو مطلع کرنے اور سیاسی ماحول کو ٹھنڈا رکھنے کی مشرکہ ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی قیادت کو بھی اس سلسلے میں قومی جذبہ اور ہوش مندانہ و دانشمندانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک آزاد وخود مختار الیکشن کمیشن سب کے مفاد میں ہے ، جب کہ جمہوریت کا پودا غیر جانبدارانہ انتخابات کے شفاف ماحول میں تناوردرخت کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔

قوم تمام سیاسی قائدین سے بجا طور پر اسی حب الوطنی،اتفاق رائے، افہام و تفہیم رواداری اور قومی سوچ کی توقع رکھتی ہے۔ اس وقت درپیش افسوس ناک صورتحال کا حل حکومت کے پاس ہے ، آئین کے تحت حکومت کو اپوزیشن سے مشاورت کے بعد چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں کسی وہم وگمان کے مخمصے میں نہیں پڑنا چاہیے اور پیدا شدہ سنگین بحران اور بعد ازانتخابات دو سیاسی تحریکوں کی جاری معرکا آرائی ،دھرنوں اور اب آیندہ کی سیاسی پیچیدگیوں کا ادراک کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت دیگر اہم مسائل کے حل کی طرف جلد سے جلد پیش قدمی کرنی چاہیے تاکہ کسی قسم کے ڈیڈ لاک کی صورت پیدا نہ ہو ۔ عدلیہ کا یہ قرار دینا ایک واشگاف حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت اگر مخلصانہ کوششیں کررہی ہے تو اسے ریکارڈ پر لانا چاہیے ۔

قبل ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بینچ نے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ معاملے پر مثبت پیشرفت ہوئی ہے لیکن قائد حزب اختلاف علاج کے لیے ملک سے باہر ہیں اس لیے حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا، مشاورت کونتیجہ خیز بنانے کے لیے مخلصانہ کوششیں ہو رہی ہیں،جسٹس تصدق جیلانی کا نام فائنل ہوگیا تھا لیکن ایک جماعت کے اعتراض پرانھوں نے عہدہ لینے سے انکارکردیا، عدالت نے یہ وضاحت مسترد کردی۔

لیکن اس کے بعد تیزی سے دوسرے ناموں کے آپشنز اور کسی ایک نام پر حتمی اتفاق رائے تک پہنچنا ناگزیر تھا،تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں عدلیہ کے اس استدلال اور منطقی جواز اور تاثر کا ازالہ اپنے عمل سے کریں کہ ''بادی النظر میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت عدالتی احکام پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں، عدالت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل ایسے کوئی شواہد پیش کرسکتے تھے جس سے معلوم ہوتا کہ حکومت عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہی ہے۔''

عدلیہ نے حکومتی لیت ولعل پر یہ بھی ریمارکس دیے کہ ''معاملہ لٹکایا جارہا ہے، جب کہ بہت مواقعے دیے ۔اب مزید تاخیر نہیں کرسکتے۔''اسی تناظر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سماعت کی یاد دہانی یہ ظاہر کرتی ہے کہ حکومت سے عدلیہ کی شکایت بے جا نہیں، بلکہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ منتخب جمہوری حکومت بلدیاتی الیکشن سے فرار کا کوئی نا کوئی بہانہ ڈھونڈنے کا وقت اور فرصت تونکال لیتی ہے جب کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خوا تینوں کی صوبائی حکومتیں بھی بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں ''چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد'' کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں اور جمہوریت کی پہلی ضرورت یعنی مقامی حکومتوں اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے قیام کی آئینی ضرورتوں کوتکمیل میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں ۔

یاد رہے جون 2005 ء میں بلغراد میں سربیائی الیکشن کمیشن کے قیام کے بارے میں ایک رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کون سی چیز انتخابی عمل میں شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بناتی ہے،جواب میں یہ بتایا گیا کہ الیکشن کے دن آئین و قانون پر عمل درآمد ہی اس کام کی ضمانت دیتے ہیں۔ سابق بھارتی چیف الیکشن کمشنر شری نوین چاؤلہ نے دہلی جامعہ میں منعقدہ سیمینار میں جس کا عنوان تھا ''کیا بھارت نے جمہوریت کو مذاق بنا رکھا ہے ،''اپنے کلیدی خطاب میں کہا تھا کہ بھارتی جمہوریت کو مذاق نہیں بنایا گیا تاہم ہماری جمہوریت کے مٹھی بھر اشرافیہOligarchyکی حکومت میں بدلنے کا خطرہ ہے۔پارلیمنٹ میں مجرمانہ کردار کے حامل افراد بیٹھے ہوئے ہیں، انتخابات انتہائی مہنگے ہوگئے ہیں ۔ ان معروضات میں دل سوزی جھلکتی ہے، ہمارے ارباب اختیار کو ان الفاظ کے آئینے میں اپنی جمہوری پوزیشن واضح کرنی چاہیے، ایسا نا ہو کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں