گلوکار اخلاق احمد کے امرگیت

یونس ہمدم  ہفتہ 29 نومبر 2014
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

گلوکار اخلاق احمد نے نامور گائیک مہدی حسن اور ورسٹائل سنگر احمد رشدی کے درمیان اپنی جگہ بناکر موسیقی کی دنیا میں اپنی ایک شناخت پیدا کی تھی اور کئی امرگیت دے کر عین جوانی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا یہ ان دنوں کی بات ہے جب اخلاق احمد کراچی کے ایک پرانے علاقے جیکب لائن کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا اس کے پاس ایک پھٹیچر سی موٹرسائیکل تھی اور یہ دن بھر ساری کراچی کے چکر لگایا کرتا تھا اور دوستوں سے ملنا ملانا اور فنکشنوں میں جانا اس کی اولین ترجیح ہوتی تھی یہ اپنی ماں کا بڑا چہیتا بیٹا تھا مگر کبھی کبھی ماں اسے ایک نکما بیٹا کہہ کر بھی پکارتی تھی کیونکہ اخلاق احمد سوائے گانا گانے کے اور کسی بھی کام سے دلچسپی نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی اسے تعلیم حاصل کرنے ہی سے کوئی خاص دلچسپی تھی۔

یہ بھی تحسین جاوید، امجد حسین اور افراہیم کی طرح شادی بیاہ کے فنکشنوں میں شرکت کیا کرتا تھا اور رات رات بھر موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کی وجہ سے بعض اوقات تو گھر پر بھی نہیں جاتا تھا اور کسی فنکار دوست کے گھر سو جاتا تھا، جس کی وجہ سے اس کی ماں اکثر پریشان رہتی تھی یہ وہ دور تھا کہ گلوکاروں کو کبھی کچھ پیسے مل جایا کرتے تھے اور کبھی انھیں دوستی کے نام پر ٹرخا دیا جاتا تھا اور کبھی کبھی تو فنکاروں کے آدھے سے زیادہ معاوضے میزبان کھا جایا کرتے تھے گلوکار اخلاق احمد کو فنکشنوں میں گانے سے جو کچھ بھی معاوضہ ملتا تھا وہ اپنے اوپر ہی خرچ کردیا کرتا تھا کبھی کبھی اس کی ماں جھلا کر کہتی تھیں اخلاق بیٹا! آخر ایسا کب تک چلے گا۔

تم کہیں ملازمت کرلو، ہر مہینے کچھ لگی بندھی تنخواہ تو پابندی سے ملا کرے گی۔ تو ماں کی ایسی باتیں سن کر اخلاق احمد کسی فلمی ہیرو کے انداز میں جواب دیتا تھا ماں! تم فکر نہ کرو، پریشانی کے یہ دن بھی گزر جائیں گے اور تم دیکھنا میں ایک دن بہت نامور گلوکار بنوں گا۔ اور پھر یہ سن کر ممتا بھری ماں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے تھے وہ اپنے بیٹے کی بلائیں لیتے ہوئے کہتی تھی۔ اللہ تیری زبان مبارک کرے۔ اللہ تجھے خوب خوب ترقی دے۔پھر میں تیرے لیے ایک چاند سی اور حور جیسی دلہن لاؤں گی اور تیرے بچوں کو گودی میں کھلاؤں گی ۔ اخلاق احمد ماں کی دعائیں سن کر کہتا تھا بس بس ماں بہت ہوگئیں دعائیں، مجھے بہت بھوک لگی ہے اب مجھے کھانا گرم کرکے دے دو۔ آج سارا دن صرف چائے پی پی کر وقت گزارا ہے۔

اخلاق احمد اکثر مجھے اپنی ماں کی باتیں بتایا کرتا تھا اسے اپنی ماں سے بہت پیار تھا۔ جب اخلاق احمد کو یہ پتا چلا کہ میں ایک فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ لکھ رہا ہوں اور گزشتہ دنوں اسی فلم کے دو گیت احمد رشدی اور رونا لیلیٰ کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گئے تھے تو وہ مجھ سے ملنے ریڈیو اسٹیشن آیا اور مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔ یار ہمدم! تم میرے کیسے دوست ہو، تم نے اپنی فلم کے لیے رشدی بھائی سے تو ایک گیت گوا لیا، مگر مجھے تم نے پوچھا بھی نہیں، مجھے ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں بلایا تک نہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے اخلاق احمد سے کہا تھا۔ تو کیوں فکر مند ہے، رشدی بھائی نے میرا ایک گیت گایا ہے اور میں نے تیرے لیے اس فلم میں دو گیت رکھے ہیں۔ امیر احمد خان جن کی دھنیں بنا رہا ہے۔

اخلاق احمد نے کہا یار! تو مذاق تو نہیں کر رہا ہے یا صرف میرا دل رکھنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ میں نے اخلاق احمد کو یقین دلاتے ہوئے کہا تھا یہ دوستوں کا فیصلہ ہے اور جو دوست دل میں رہتا ہے اس کے ساتھ کبھی مذاق نہیں کیا جاتا ہے۔ بس اب تو بھی ریکارڈنگ کے لیے تیار ہوجا۔ میں نے اپنے پروڈیوسر و ڈائریکٹر سے کہہ دیا ہے۔ بات طے ہوچکی ہے ۔ دونوں گیتوں کی دھنیں تیار ہوچکی ہیں اور تیرے گیتوں کی ریکارڈنگ بھی جلد ہی ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہوگی اسی دوران موسیقار امیر احمد خان بھی آگیا اس نے آتے ہی یہ خوشخبری سنائی کہ ایسٹرن اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ کی شفٹ مل گئی ہے چلو اخلاق احمد! اب تم بھی ریہرسل کی تیاری کرلو۔ یہ خبر سن کر اخلاق احمد کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ دوسرے دن امیر احمد خان نے اخلاق احمد اور اسما احمد (گلوکارہ افشاں کی والدہ) کی آوازوں میں ریکارڈ کیے جانے والے ڈوئیٹ کی ریہرسل رکھ لی پھر آخری ریہرسل ایسٹرن اسٹوڈیو ہی میں کی گئی آخر کار اخلاق احمد کی زندگی میں وہ دن آ ہی گیا جب ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کے لیے اخلاق احمد کی آواز میں دو گیت ریکارڈ کیے جا رہے تھے پہلے اخلاق احمد کی آواز میں ایک سولو گیت ریکارڈ کیا گیا جس کے بول تھے:

آپ سے پیار کا اظہار بڑی مشکل ہے
دل کے آجانے کا اقرار بڑی مشکل ہے

یہ ایک بڑا ہی رومانٹک گیت تھا جس کی دھن امیر احمد خان نے بڑی دلنشیں بنائی تھی یہ گیت سینئر ریکارڈسٹ ہاشم قریشی صاحب نے ریکارڈ کیا پھر دوسری شفٹ میں ایک ڈوئیٹ گیت اخلاق احمد اور اسما احمد کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا ۔اس گیت کو دونوں ہی نے بڑے خوبصورت انداز میں گایا گیت کے بول تھے جس کا مکھڑا اسما احمد کا تھا:

اک بے وفا سے ہم نے بھلا پیار کیوں کیا
چاہا تھا دل نے جس کو وہی درد دے گیا

جس کے جواب میں اخلاق احمد کا مکھڑا تھا جسے ہیرو پر عکس بند کیا جانا تھا۔اخلاق احمد کے مکھڑے کے بول تھے:

میں بے وفا نہیں ہوں زمانہ ہے بے وفا
میری خطا نہیں ہے زمانے کی ہے خطا

اس ڈوئیٹ کی دھن بڑی پرسوز اور متاثر کن تھی۔ تمام مہمانوں نے اس گیت کی دھن کو بھی بڑا پسند کیا اور اخلاق احمد، اسما احمد کی آوازوں کی سب ہی نے بڑے دل سے تعریف کی۔اخلاق احمد نے گیت کی ریکارڈنگ کے بعد مجھے اور امیر احمد کو گلے سے لگالیا اور اس کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے بھیگ سی گئی تھیں مجھے سب سے زیادہ اس بات کی خوشی تھی کہ میں نے اپنے دیرینہ دوست سے کیا ہوا ایک وعدہ نبھادیا تھا۔ اخلاق احمد نے کچھ پیسے جمع کیے اور پھر وہ کراچی سے لاہور سدھار گیا کیونکہ لاہور ہی اس کا امنگوں کا مرکز تھا۔ اداکار ندیم سے بھی اخلاق احمد کی اچھی دوستی تھی۔ ندیم نے ان ہی دنوں اپنی فلم ’’مٹی کے پتلے‘‘ شروع کی تھی۔ ندیم نے سب سے پہلے اسے گوایا پھر اخلاق احمد نے اداکار رحمان کی فلم ’’چاہت‘‘ کے لیے ایک گیت ریکارڈ کرایا جس کے بول تھے:

ساون آئے ساون جائے رے
تجھ کو بلائیں میرے گیت‘ میرے میت رے

اس گیت کی ریلیز نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں ایک تہلکہ مچا دیا اور اخلاق احمد شہرت کی بلندیوں کی طرف آگیا اسی دوران موسیقار روبن گھوش نے فلم ’’بندش‘‘ میں اخلاق احمد کی آواز میں پشاور سے آئے ہوئے ایک نئے شاعر سعید گیلانی کا لکھا ہوا گیت ریکارڈ کیا جس کے بول تھے:

سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من
تجھ کو میں دے سکوں گا

اس گیت کی مقبولیت نے اخلاق احمد پر شہرت کے سارے دروازے کھول دیے ۔اب تو ہر موسیقار اخلاق احمد کے گن گانے لگا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق احمد، مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے نامور فنکاروں کی صف میں شامل ہوگیا۔ کل کا بے سروساماں ایک بے نام گلوکار اخلاق احمد اب لاہور کی فلم انڈسٹری کا چہیتا گلوکار بن گیا تھا۔ اور سارے پاکستان میں اس کے گیتوں کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اب اس کے پاس نئے ماڈل کی ایک چمچماتی کار بھی تھی۔ پھر کچھ عرصے بعد اخلاق احمد بڑی شان سے کراچی آیا اور اس نے طارق روڈ پر ایک خوبصورت فلیٹ خرید لیا۔ اب اس کے خوابوں کی تعبیر اسے مل گئی تھی۔ اپنی ماں کا یہ نکما بیٹا اب بڑا نامور گلوکار بن گیا تھا اس کی ماں کی دعائیں آسمان والے نے سن لی تھیں۔

اسی دوران کراچی سے لاہور کے دوران سفر کرتے ہوئے ایک ایئرہوسٹس نے اسے اپنا بنا لیا۔ تھوڑے دنوں کی دوستی نے ایک شادی کا روپ دھار لیا اور اس طرح اخلاق احمد کی ماں کو ایک حور جیسی بہو بھی مل گئی پھر کچھ یوں ہوا کہ اخلاق احمد بیمار رہنے لگا۔ ایک دن جب پریشان ہو کر اخلاق احمد نے ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹر نے یہ کہہ کر بجلی سی گرادی کہ اخلاق احمد کو خون کا کینسر ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اخلاق احمد مرجھاتا گیا۔ اسی دوران ماں کی موت کے صدمے نے اسے مزید نڈھال کردیا۔ مگر اخلاق احمد نے بہت ہمت کی وہ اپنے مرض کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے لڑتا رہا اس کا مقابلہ کرتا رہا۔ آخر ایک نحیف انسان کینسر جیسے موذی مرض کا کب تک مقابلہ کرتا اس کی ہمت جواب دیتی چلی گئی۔ آخر ایک دن لندن کے ایک اسپتال میں یہ اپنی زندگی ہار گیا۔ وہ ایک کامیاب گلوکار ایک اچھا انسان اور ایک پیارا دوست تھا۔ وہ مر کے بھی نہیں مرا۔ وہ اپنے امر گیتوں کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔