فٹبال ٹیم ....داستان اورکچھ عالمی حقائق

نادر شاہ عادل  پير 15 دسمبر 2014

کسی اور شعبے کی بات تو قطعی نہیں کی جاسکتی لیکن اتنا سب جانتے ہیں کہ بیسویں صدی میں دنیائے فٹ بال میں بحث اسی بات کے گرد گھومتی رہی ہے کہ کس کے سر پر عظمت کا تاج رکھا جائے ۔ برازیلین فٹ بال جادوگر پیلے کے سر پر یا ارجنٹائن کے مست و بیخود کھلاڑی ڈیگو میراڈونا کے قدموں میں۔دونوں اپنے عہد کے بہت بڑے کھلاڑی تھے، دونوں ابھی زندہ ہیں، مگر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں۔یہ معاصرانہ چشمک ہے یا حسد و رشک کا جاں سوز شرارہ۔ اﷲ جانے مولا جانے ۔

لیکن شخصیت کی نفاست، انسانی اوصاف ، تدبر و سنجیدگی اور کھیل سے کمٹمنٹ کے حوالہ سے دونوں کے خیالات کافی مختلف ہیں ۔ پیلے کو دنیا بھر کی فٹبال ٹیمیں اپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں، لیکن میراڈونا کے اسکینڈلز نہیں تو میچز ان کے تصور جمال سے کبھی محو نہیں ہوتے ۔ وہ آدمی برا سہی مگر بلا کا فٹبالر تھا ،اس جیسی کمر توڑ پھرتی شاید کسی نے دیکھی ہو ۔ وہ سڈول جسم کا پھرتیلا چیتا لگتا تھا مگر اس کے برعکس پیلے گرائونڈ میں غزال ختن کی طرح کلیلیں بھرتا رہتا، اس کے کھیل کی جمالیات و سیمابیت کا سارا حسن اس کے بدن کی شاعری سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا کھیل ایک تکنیکی پلک جھپک فیصلے کا انقلاب ہوتا ، وہ مخالف ٹیم کی صفیں الٹ پلٹ کر رکھ دیتا تھا ۔

لیکن شائقین فٹبال کو یاد ہوگا کہ 1986ء فیفا ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں میراڈونا کا انگلینڈ کے خلاف گول جو انھوں نے انتہائی تیزی اورعیاری سے ہاتھ سے کیا تھا اسے وہ ’’ہینڈز آف گاڈ‘‘ قرار دے چکا ہے ۔ اس وقت انگلینڈ کے  منجھے ہوئے گول کیپر اور ٹیم کپتان پیٹر شلٹن تھے ۔ پیلے اور میراڈونا دونوں فٹ بالرز کی باتیں ساتھ ساتھ چلیں گی لیکن آپ سوال کرسکتے ہیں کہ اس وقت ان کا ذکر کیوں آیا ؟ کیا کوئی نیا ورلڈ فٹ بال کپ ہونے والا ہے ۔ جی نہیں ۔ بات ورلڈ کپ کی ضرور ہے کیونکہ اس عالمی افسانہ میں پاکستان فٹ بال ٹیم کا کبھی ذکر نہیں ہوتا اسی لیے دل کو بے قراری سی ہے کہ جو ملک کرکٹ ، ہاکی، اسکواش ، اسنوکر اور باکسنگ میں متحرک نظر آتا رہا ہے اسے ہر چار سال بعد عالمی فٹ بال کے عظیم الشان مقابلوں میں شرکت کی سعادت قیام پاکستان سے اب تک کیوں حاصل نہیں ہوئی ؟ کیا اس ضمن میں کوئی ایسی سرکاری یا فٹ بال فیڈریشن کی سطح پر کوئی تحقیق ہوئی ، کسی نے کوئی ماہرانہ رپورٹ مرتب کر کے متعلقہ ارباب اختیار ، فٹ بال فیڈریشن، یا پاکستان اسپورٹس بورڈ کو دی تاکہ اندازہ لگایا جاسکتا کہ فٹبال کے عالمی میلے کے خوبصورت نقشہ پر سے ہمارا وطن کس لیے غائب رہتا ہے۔

کیا ہمارے کھلاڑی بھوٹان، بھارت، مالدیپ ، ویت نام ، ملائیشیا، بنگلہ دیش، نیپال، اور افغانستان سے کھیلتے ہوئے عمر گزار دیں گے، کیا ہم عالمی فٹبال  کے معیار کے حوالہ سے ’’عرض نیاز عشق‘‘ کے بھی قابل نہیں رہے، کہ کوالیفائینگ رائونڈز کا دریا پار کر کے کبھی دنیا کی بہترین اور منفرد ٹیموں کے قافلے اور ان کی حمتی ٹیموں کی فہرست میں  سرخرو ہوکر شامل ہوتے ۔ فٹبال کے زوال اور بحران کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی دلگداز سیاسی کہانی ۔ پاکستانی سیاست کی طرح فٹبال کی سیاست بھی بے منزل اور بے سمت رہی۔ میں نے 1950 ء کی آخری دہائی سے یوتھ فٹبال کھیلنا شروع کی اور علی نواز، مولابخش گوٹائی ، جبار ، غفار ، تاج محمد تاجل، سرور، قادر بخش پتلا ، تقی، مراد بخش وغیرہ کے ہمراہ یا خلاف فٹ بال کے مقابلوں میں حصہ لیا ۔

یہ وہ دور تھا جب عمر، استاد رمضان، نبی بخش، ٹارزن، حسین کلر، عبد اﷲ راہی ، ابراہیم، میر زمان، عباس ، غفورمجنا ، قیوم چنگیزی ، تراب علی ، شفیع، شدو، استاد داد محمد ، موسیٰ غازی، عابد ، مظفر ، ہارون، خمیسہ، رحمٰن ، سنبل، فخری، زمان شاہ، یعقوب، شفیع ، افضل ، ربانی، گل محمد لاڑی ، ابراہیم ، رسول بخش ، فیض محمد ، مولا بخش مومن اور دیگرعروج پر تھے لیاری کو فٹبال سے وہی نسبت رہی ہے جو برازیل کے گلی کوچوں کے بچوں اور نوجوانوں کو ہے جن کے بارے میں پیلے کا کہنا ہے کہ ان کا کھانا، پینا اور اوڑھنا بچھونا فٹ بال ہے ۔ پاکستان فٹبال کے انتظامی حفظ مراتب کے اعتبار سے فیفا کے نائب صدر مرحوم غلام عباس اور مایہ ناز کھلاڑی  علی نواز کا یکساں موقف رہا کہ ہماری ٹیم کو ’’اسپورٹس اسٹبلشمنٹ‘‘ نے کبھی اس قابل نہیں سمجھا ۔ اور لیاری ان کی انا کا مسئلہ بن گیا تھا ۔

آپ اسٹبلشمنٹ کا سن کر حیران نہ ہوں، اس مملکت خداداد میں ہر مافیا ایک اسٹبلشمنٹ کے زیر سایہ چلتی ہے، جو کھیل عرش سے آجکل فرش پر لیٹے ہوئے ہیں ان کی سیاسی، گروہی، محکمہ جاتی اور شخصی اکھاڑ پچھاڑ میں یہی اسٹیلشمنٹ متحرک ہوتی ہے مگر نظر نہیں آتی ۔ جن آنکھوں نے  جون ، جولائی 2014 ء کا عالمی فٹ بال کپ کے مقابلے دیکھے ہیں وہ اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکیں گے کہ کس فٹ بالر کو کس مقام پر رکھیں اور کس ٹیم کو اس کی اسپرٹ ، فارمیشن، ٹرک ، تھرل، ڈربلنگ ،ڈاجنگ، دفاع اور جارحانہ حملوں کے حساب سے درجہ بندی کریں ۔ پاکستان اپنا پہلا سرکاری میچ 1950 میں ایران سے 5-1 سے ہار گیا تھا۔ اس کے بعد ایران نے کئی بار عالمی کپ کی حتمی ٹیموں کی فہرست میں جگہ بنائی مگر پاکستان 1930ء سے 2014 ء تک عالمی کپ کے لیے کوالیفائی نہ کرسکا، ہم برسوں کنویں کے مینڈک رہے، جب کہ دنیا ہر چار سال بعد عظیم کھلاڑیوں کو ایک سے بڑھ کر ایک میچز سے لطف اندوز ہوتی رہی ۔ فٹبال  دشمنی اس قدر تھی کہ سارے فیصلے نمائشی اور فیفا کو خوش کرنے کے لیے ہوتے رہے ۔

اور ایک وقت ایسا آیا کہ فٹبال فیڈریشن کا دفتر کراچی سے منتقل کیا گیا ۔ یہ فٹبال کی آفیشل تدفین کی پہلی کارروائی تھی ۔ لیاری کے سیاہ فام کھلاڑی راندہ درگاہ ہوگئے، کراچی کے دو فٹبال گرائونڈز تھے کے پی ٹی اور ریلوے گرائونڈ ، جہاں ہزاروں شائقین فٹبال کے ٹورنامنٹس میچز دیکھتے  تھے ، ویران ہوگئے، آئی آئی چندریگر روڈ پر قائم ریلوے گرائونڈ آجکل شادی ہال میں تبدیل ہوگیا ۔ فیفا ریفری بہادر خان اس فیصلے سے تڑپتے رہے۔ سب سے بڑا پیپلز پلے گرائونڈ ماری پور روڈ رینجرز کی تحویل میں ہے، کے ایم سی گرائونڈ جو فٹبال کی نرسری کہلاتا تھا اسے بھی بے رونق کردیا گیا۔ محکمہ جاتی ٹیموں نے کافی سہارا دیا مگر اب وہ اسپرٹ اور فٹبال دوستی کا جذبہ سرد پڑ گیا ۔ لیاری میں اچھے فٹبالر گینگ وار کی نذر ہوگئے ۔ ہر چند کہ قومی ٹیم میں رواں سالوں میں ایسے نوجوان کھلاڑی بھی آئے جو غیر ملکی لیگ میچز میں کھیلتے رہے، عیسیٰ جیسا بہترین فٹبالر سامنے آیا ۔ مگر جو فٹبال پاکستان میں 1950-70 کے درمیان کھیلی گئی وہ اس کے عروج کا زمانہ تھا، یہی وہ دور تھا جب مشرقی پاکستان کے لیگ میچز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی بڑی تعداد منتخب کی جاتی تھی، مشرقی پاکستان کے سقوط کے ساتھ ہی پروفیشنل فٹبال کا جنازہ بھی اٹھ گیا ۔

کئی قومی کھلاڑی کہتے رہے کہ عالمی معیار کی غیر ملکی اے ڈویژن ٹیموں کی پاکستان آمد مسلسل ہوتی یا عالمی کپ میں شامل ٹیموں کے مابین باضابطہ عالمی مقابلے پاکستان میں کرائے جاتے اور ان کے ابتدائی رائونڈز میں پاکستان ٹیم کو ان بڑے کھلاڑیوں کے مقابل کھیلنے سے جو ہنر مندی ملتی اسی سے وہ اپنی شکست سے کامیابی کے نئے راستے تلاش کرسکتے تھے، قومی کرکٹ اور ہاکی ٹیموں کی ترقی اورمعیار کی بلندی برسوں کی ریاضت اور ملک کے اندر عالمی مقابلوں کی منظوری اور مربوط انتظامات سے ممکن تھی مگر ایڈہاک ازم پر جس ملکی سیاست چلائی گئی فٹبال کو اسی روایتی ڈھب پر چلانے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ان کے کھیل کے تجربات سے براہ راست استفادے کی مربوط پالیسی اختیار کی جاتی تو کھیل کا ٹمپو بدلتا ۔ دنیا میں فٹ بالروں کی ایک کہکشاں نظر آئیگی ۔میسی آج کا تاریخ ساز اور عظیم ارجنٹائنی کھلاڑی ہے،اسی طرح پرتگال کے کرسٹیانو رونالڈو کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔

مگر حالیہ عالمی کپ میں دونوں کھلاڑی ’’مارکڈ‘‘ تھے ،انھیں ہلنے کی بھی مخالف دفاعی کھلاڑیوں نے اجازت نہیں دی ، کرسٹیانو تو اس سے پچھلے ورلڈ کپ میں بھی جھنجھلا کر رہ گئے تھے، ان کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا۔ مگر ان دونوں کی  بین الاقوامی شہرت،دولت اور عزت ان کے ملک کے پرچم اور عوامی امنگوں کے خوابوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اس چیز کا جائزہ لیجیے تو میرٹ کے بعد بڑا قتل فٹبال کی قومی کھیل کا ہوا ہے۔ پاکستان فٹبال کا یہ المیہ رہا کہ اسے ابتدا ہی سے ’’بیٹی اپنی بہو پرائی‘‘ کے رویے اور مائنڈ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا ۔منی پاکستان لیاری کا نام تو 1956-60ء سے سامنے آیا ۔پھر کیا ہوا؟

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔