فٹبال ٹیم ....داستان اور کچھ عالمی حقائق

نادر شاہ عادل  پير 22 دسمبر 2014

پہلے ایک فون کال کا ذکر ہوجائے جو گزشتہ کالم کے سلسلے میں کراچی میں پی آئی اے سے کشور کمار صاحب نے کیا ، ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف پاکستان فٹبال کی تاریخ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں بلکہ اس کھیل سے جذباتی وابستگی رکھنے والے ماضی کے نامور فٹبالرز سے گہری عقیدت و محبت بھی رکھتے ہیں، انھوں نے دو تین فٹبالرز کے نام بتائے اور کہا کہ ان کا تذکرہ نہ کر کے آپ نے مضمون تشنہ چھوڑ دیا۔

وہ نام سن کر مجھے خود بھی شرمندگی ہوئی ،کشور کمار نے یاد دلایا کہ علی اصغر مرحوم جن کی عرفیت ٹونی اور ڈبوتھی جب کہ غلام سرور ٹیڈی بھی مایہ ناز کھلاڑی تھے، وہ ایوب ڈاڈا عرف ٹمّاں کے بھی شیدائی تھے ۔ شکریہ کشور جی۔ مگر حیران ہوں کہ جینگو کے علاقے کے سابق مکین کپتان رشید بلوچ سمیت بہت سوں کا کسی کو نام یاد نہیں ۔ اس ضمن میں ایک عجیب لطیفہ ہوگیا ، میں  نے نیٹ پر ماضی کے ان فٹ بالرز کی زندگی اور کارناموں کی تفصیل دیکھنا چاہی جو پی آئی اے اور دیگر محکموں سے تعلق رکھتے تھے، تو کلک کرنے سے  sundhage  pia کی وکی پیڈیا پر تفصیلی رپورٹ بے شمار  ’’تصویر بتاں‘‘ کے ساتھ سامنے آگئی ، دیکھا تو معلوم ہوا کہ سویڈن کی اس گریس فل ، شہرت یافتہ اور اب بوڑھی فٹبالر خاتون کو 2000  میں یعنی اپنے عروج کے زمانے میں فیفا ویمن پلیئر آف دی سینچری کا اعزاز حاصل رہا ہے، وہ سویڈش خواتین فٹبال ٹیم کی مایہ ناز فارورڈ تھیں ۔

انھیں ٹیم منیجر اور ہیڈ کوچ کا منصب حاصل رہا ہے ۔آپ خود دیکھ لیجیے نیٹ پر پاکستان کے کتنے مشہور و معروف انٹرنیشنل فٹ بالرز کا باتصویر ڈیٹاموجود ہے ۔ کچھ بھی نہیں ماسوائے چند  تصاویر ، فیڈریشن یا فیفا کے توسط سے کچھ گرافکس اور میچز کی تفصیل ۔ پی آئی اے اپنے وقت کی مقبول ٹیم تھی ، اس نے 9بار قومی فٹبال چیمپئین شپ جیتی، کبھی اس کے کھلاڑی کے پی ٹی گراؤنڈ پرپریکٹس کرتے تھے، آجکل وہ گراؤنڈ گڈز ٹرک اڈہ میں گھرا ہوا ہے ۔

70 کا عشرہ تھا ،  ترکی کی قومی ٹیم نے دو پاکستانی فٹبال اسٹارز مولا بخش گوٹائی اور عبد الجبار کو ترکی کی قومی ٹیم میں شمولیت کی دعوت دی اور دونوں چلے گئے مگر ان کی واپسی عمل میں آئی، پاکستان فٹبال کا معیار اگرچہ بلند تر تھا مگر مولا بخش گوٹائی کا کہنا تھا کہ ترکی فٹبال ٹیم کے لیے جس اسٹیمنا اور فٹنس کی ضرورت تھی ہم اس سے مطابقت نہیں رکھ سکے، غربت، ناخواندگی اور معاشی مجبوریوں کے باعث فٹبالرز کی اکثریت ریٹائرمنٹ کے بعد یا کھیل کے دوران ہی بربادیوں کے گھریلو لپیٹ میں آتے رہے۔ کئی گمنامی میں ایڑیاں  رگڑتے ہوئے مرگئے ۔ سب سے دردانگیز مثال قومی ٹیم کے کپتان تراب علی کی تھی جو کھیل سے ریٹائر ہوئے تو ٹیکسی چلا کر اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے رہے، عمر کے آخری حصہ میں نیشنل بینک کے سابق صدر علی رضا اور عقیل ڈھیڈی نے ان کی مالی مدد کی تاہم وہ مقروض ہوکر انتقال کرگئے ۔

غفور مجنا کو برازیل کے رابرٹو کارلوس کے برابر کا ڈیفنڈر مانا گیا ، وہ دیوار چین  قرار پائے تھے، 60  ء میں ریلوے گراؤنڈ پر ہونے والے میچ میں سندھ گورنمنٹ پریس کی طرف سے کھیلتے ہوئے ان کی مڈ فیلڈ سے لگائی ہوئی کک گول پوسٹ کے جال سے جا کر ٹکرائی تھی، اسٹیڈیم میں تماشائیوں کا شور قیامت اٹھا تھا ، یہ ویسی ہی ناقابل یقین اور طاقتور شوٹ تھی جو مغربی جرمنی کے دفاعی کھلاڑی آندریز برہمے نے لگائی تھی جس کے بعد ان کو رولر کوسٹر کا نام دیا گیا۔ اس وقت جرمن کپتان رومی نیگے تھے ۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا قیام 1958 میں عمل میں آیا ۔جب کہ لیاری فٹبال کی نرسری تھی ، تجزیہ کار لکھ رہے ہیں کہ برصغیر کی فٹبال کا تانا بانا کراچی اور اس کی قدیم بستی لیاری کے فٹبالرز سے منسلک تھا، پنڈت جواہر لعل نہرو اور دلیپ کمار کے پسندیدہ کھلاڑی محمد عمر اسی لیاری کا حوالہ ہیں، باقیوں کے نام لکھ دوں تو کالم بھر جائے۔

بہر حال پاکستان فٹبال فیڈریشن فیفا کمٹمنٹ کی تکمیل کرتی رہی، اور فیفا نے فٹبال کی ترقی کے لیے پاکستان سے خیرسگالی نبھائی جس کے باعث پاکستان فٹبال کے نقشہ پر موجود رہا مگر اس کی عالمی شناخت نہ ہونے کے برابر رہی ، بعض لوگ سارے زوال کو غیر ملکی کوچز کی کمی سے جوڑتے ہیں ، ان کا خیال ہے کوچ ہی کا کسی بڑی اور ناقابل شکست ٹیم کی تشکیل میں ہاتھ ہوتا ہے، محنتی قومی کوچ طارق لطفی تو میراڈونا کے بھی منتظر تھے، کوچ ضروری ہیں، لیکن  مشاہدہ کہتا ہے کہ 1950-70کے دوران برٹش کونسل کے اشتراک سے ورلڈ کپ کی بلیک اینڈ وائٹ فٹبال soccer  فلمیں لیاری کی اسپورٹس کلبس کو ملتی تھیں،اور کئی برس تک یہ سلسلہ چلتا رہا، ان میچز کی فلموں نے لیاری مین کمسن فٹبالرز اور سینئر کھلاڑیوں کی بالواسطہ تربیت کی ، میرا استدلال ہے کہ ٹی وی پر فیفا ورلڈ  عالمی کپ ، سپینش، اطالوی ، یورو کپ اور برطانوی لیگ میچز کی ویڈیوز اورلائیو میچز  بڑے سے بڑے کوچ کی تربیت  کے ساتھ ساتھ نظری تربیت ، شعور ، اور ہنر مندی کا خزانہ ہیں ۔فٹبال کھیلنا صرف گیند لے کر دوڑنے کا نام نہیں ورنہ کارل لوئیس یا یوسین بولٹ سب سے بڑے فٹبالر بن جاتے ۔

فٹبال کے ساتھ اسٹار کھلاڑی  وہی ہنر مندی دکھاتا ہے جو شاعر لفظوں کی جادوگری اور  خیال کی نزاکتوں سے کام لیتا ہے۔دنیا کے لاکھوں نوجوانوں کو اﷲ تعالیٰ نے خوبصورت بدن ،طاقتور ٹانگیں اور مضبوط دماغ و سر عطا کیا ہے لیکن ہمیں پیلے ، میراڈونا، بابی مور، یوسیبیو، پشکاس، پلاٹینی، روسی، میسی، راڈریگز، رونالڈینو، رونالڈو، ٹوریس اور اس جیسے سیکڑوں بڑے فٹبالرز نظر آتے رہے۔ دور نہ جائیں، 2014 کے ورلڈ کپ کے اس ایک واقعہ کو دیکھیں جس میں برازیل کے زخمی اور اشکبار نوعمر سپر اسٹار نیمار جونیئر کے ساتھ جو ہوا ۔ بڑے سینئر مبصرین حتیٰ کہ پیلے تک پیشگوئی کرچکے تھے کہ اس بار نیمار دھماکا کریگا۔ وہ مستقبل کا پیلے ہے۔

برازیل نے اگرچہ کولمبیا کو 2-1 سے ہرا دیا تھا مگر 22 سالہ نیمار پر مخالف دفاعی کھلاڑی ہوان زونیگا برق بن کر گرے ، ان کی پسلیوں اور کمر پر وہ ضرب لگائی کہ نیمار اسٹریچر پر پڑے روتے چیخیں مارتے گراؤنڈ سے باہر چلے گئے اور ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئے، اسی برازیل کو جرمنی نے 7-0 سے شکست دی ۔ یہ ورلڈ کپ فٹبال تاریخ میں برازیلین کوچ اسکولاری کی نازونعم سے پلی اور عالمی امنگوں کی نقیب برازیلی ٹیم کا بدترین سرنڈر تھا ۔ برازیل کی عبرت ناک شکست نے دنیا بھر میں اس کے کروڑوں شائقین کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری کردیا، مجھے یاد ہے کہ فیفا کپ کے آغاز سے قبل بعض فٹبال مبصرین نے خبردار کیا تھا کہ برازیل سارے پتے نیمار پر نہ کھیلے، کچھ الٹ  ہوا تو اس کا دباؤ الم ناک بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ کپتان تھیاگو سلوا اور نیمار کے بغیر برازیل کا ورلڈ کپ کے باقی میچز کھیلنا ایسے تھا جیسے ’’ہملٹ ‘‘ کے اسٹیج شدہ ڈراما کا شو ہملٹ کے بغیر اختتام پزیر ہوا ۔

یہ شکست آفاقی مضمرات اور ہمارے لکیر کے فقیر سیاست دانوں اور حکمرانوں کے لیے بھی چشم کشا ہے۔ کسی ایک ’’کھلاڑی‘‘ یا سیاست دان پر اس یقین کے ساتھ تکیہ درست نہیں کہ وہی ساری جنگ لڑے گا ۔جیت بس ہماری ہوگی ۔ سیاست اور کھیل دونوں فیصلوں کی درست ٹائمنگ سے تعلق رکھتے ہیں، کسی کو شک ہو تو بائی سائیکل کک کے تمام حیران کن گول کی ویڈیوز دیکھ لے،اس سے اندازہ ہوجائیگا کہ فٹبال کے کتنے جادوگر کھلاڑی کیسی ششدر کرنے والی قلابازی کھاتے ہوئے بر وقت اور درست ککیں لگاکر گول کرتے ہیں۔

حالیہ ورلڈ کپ کے فائنل میں جرمن فارورڈ ماریو گوٹزے کا سینہ پر گیند کو مہارت سے روک کر گول کرنے کی سائنٹیفک سوئیپ کک ضرور دیکھیے۔ یہ گول نہ ہوتا تو ارجنٹائن اور جرمنی میں پنالٹی شوٹس پر فیصلہ ہوتا ، جب کہ پنالٹی شوٹ کی مجبوری پر پیلے نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ پنالٹی کک گول کرنے کا سب سے بزدلانہ طریقہ ہے۔‘‘ اس لیے تمام بڑی اور طاقتور ٹیمیں مقررہ وقت کے اندر میچ کا فیصلہ چاہتی ہیں ۔ المختصرسارا عالمی فٹبال میلہ حیران کن اسٹیمنا، فٹنس، بروقت فیصلوں، ٹیم ورک ، ساحرانہ اور اعصاب شکن پاسز اور خوفناک شوٹنگ کی بے مثال تفریح ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے فٹ بال سے مذاق اور دل لگی میں قوم کا قیمتی وقت گنوا دیا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔