رحمت عالم ﷺ کا اسوہ حسنہ

آغا سید حامد علی شاہ موسوی  جمعـء 2 جنوری 2015
انسانیت کے درد کا درماں تمہی تو ہو۔ فوٹو: فائل

انسانیت کے درد کا درماں تمہی تو ہو۔ فوٹو: فائل

خالق عالم نے خاتم المرسلین حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کو سب انبیا کرام سے افضل و برتر قراردیا ہے۔

آپ ؐ کی حیات ِ طیبہ بہترین زندگی کا اعلیٰ نمونہ ہے، جس کا تجربہ انسانیت ابتدائے حیات سے اب تک کرتی آئی ہے۔ یہ زندگی اس انسان کامل کی زندگی ہے، جو دنیائے بشریت میں عبدیت و بندگی کا حقیقی نمونہ ہیں۔ آپﷺ وہ نابغہ ذات ہستی ہیں، جنہیں روئے زمین پر ’’دانائے سبل مولائے کل ختم الرسل‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔

آپؐ کی زندگی اس قدر پرکشش اور جاذب ہے، جو دوستوں کو اپنی محبت کی بالاترین حد اور دشمن کو دشمنی کی حد تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ وہ نمونہ کامل ہے جسے لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ قراردیا گیا جن کے بارے میںارشاد رب العزت ہے کہ وہ رسول انہیں آیات سناتا ہے، تزکیہ اخلاق کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی بنا پر حضورؐ کو راہ بر و معلم انسانیت کہا گیا۔ چناںچہ آپﷺ کا فرمان ہے، مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

ہادی برحق ؐ کو جس زمانے میں مبعوث فرمایا گیا۔ اس کی تصویر کشی جضرت علیؓ نے یوں فرمائی ’’خداوندِ متعال نے اپنے عظیم پیغمبرؐ کو ایسے زمانے میں مبعوث فرمایا، جب ایک عرصے سے کوئی پیغمبر مبعوث برسالت نہ ہوا تھا نتیجتا قومیں خوابِ غفلت میں جاپڑی تھیں، عملیات کا سلسلہ منقطع ہوچکا تھا، ہر طرف جدل و جدال کی آگ بھڑک رہی تھی اور جہالت و ذلالت کی ظلمتوں نے دنیا کو تاریک کررکھا تھا، فریب کاری دھوکے بازی کی اعلانیہ عالم ِ بشریت پر حکم رانی تھی۔

انسان کے رشد و ہدایت اور عروجِ زندگی کے پتے مرجھا کر جل چکے تھے، بدبختی و بدنصیبی اپنے مکروہ اور بدنما چہرے کے ساتھ حضرت انسان کی حالت پر مسکرا رہی تھی، فتنہ و فساد اور بدقسمتی کا حاصل سوائے پریشانی، بربادی و تباہی کے کچھ نہ تھا، خوف و ہراس اور خطرات کے بادل چھائے ہوئے تھے، عوام میں کوئی فرد محفوظ نہیں تھا، حکم رانوں، ظلم و جور اور خون آشام تلواروں کے سامنے کسی قسم کی پناہ گاہ نہیں تھی۔

ایک اور جگہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ’’ اﷲ نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا تاکہ اہل عالم کو غلط طور طریقوں سے خبردار کریں، جنہیں وہ اپنائے ہوئے تھے۔ اور آنحضرت نے اپنے آسمانی احکام قوانین کا امین بنایا وہ ایسا زمانہ تھا، اے گروہِ عرب تم لوگ بدترین دین رکھتے تھے۔

بدترین حالت میں زندگی گزار رہے تھے اور تم کھردری سخت سنگلاخ زمینوں اور زہریلے سانپوں کے انبوہ ِ کثیر کے درمیان سویا کرتے تھے، گدلے جوہڑوں کا پانی جس پر کائی اور مٹی جمی ہوتی تھی، سے اپنی پیاس بجھاتے تھے، نامناسبت غذائیں کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اپنے عزیزوں سے رشتے ناتے قطع کر دیتے تھے اور ان سے جنگ پر آمادہ ہوجاتے تھے، تمہارے درمیان بتوں کی پرستش عام رائج تھی اور کوتاہیوں، برائیوں اور بدعنوانیوں نے تمہارے دست و بازو اور فکر و شعور پر تسلط جما رکھا تھا‘‘

زور زبردستی اور سیم و زر کی حکومت عوام کی بیکسی اور بے بسی صرف دنیائے عرب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہی کیفیت تھی۔ ایسے وحشت ناک حالات اور گھٹن کے ماحول میں سرورِ کائنات ؐ کی نجات بخش تبلیغ ِ رسالت کا آغاز ہوا، جو وماارسلنک الارحمۃللعالمین کے حامل تھے۔ آپؐ مختصر سی مدت میں دنیا کو مادیت اور حیوانیت سے انسانی مدارج کی اعلیٰ منزل اور اخلاقِ کریمہ کی صفاتِ حمیدہ کی طرف لانے میں سرفراز ہوئے۔

آپﷺ نے صراطِ مستقیم اور عدل و انصاف کے قیام اور عدالتِ الہی کی جانب راہ نمائی فرمائی آپﷺ کو خاص لطف الہی بھی حاصل تھا کہ آپ کی صدائے حق کی گونج اس وقت سے اب تک طویل ترین عرصے سے فضائے عالم میں سنائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب شمال و جنوب میں اسم’’ محمّد‘‘ انتہائی عزت و کمال شوق اشتیاق سے پکارا جاتا ہے۔ آپ ؐ کے شیدائیوں اور فدائیوں کے دل آپ کے طاہر و مطہر وجود کی طرف ہمہ وقت مبذول رہتے ہیں۔

آج اسلام کا درد رکھنے والے اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ عالم کفر کے مقابلے میں مسلمانان عالم کا ناقابل ِتسخیر متحدہ مسلم محاذ بن جائے کیوںکہ بڑی طاقتوں نے انسانیت کو وحشت و اضطراب کے گرداب میں پھنسا رکھا ہے۔ پوری دنیا ان کے حصار میں ہے، مسلم ریاستوں میں افراتفری انتشار کا شور و غوغا ہے۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کیا مگر اسے دہشت گردی کے دوزخ میں جھونک دیا گیا ہے۔ پاکستان کی اساس اسلام ہے جو دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اسے غیر مستحکم کرنے کے لیے ابلیس عالم نئے ہتھکنڈے اور ایجنڈے لارہا ہے، سانحہ پشاور میں بچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔

حضورؐ نے تو اپنے بیگانوں سے حتٰی کہ جنگی قیدیوں سے بھی صلہ رحمی کا سلوک فرمایا۔ فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر اسلام ؐنے عفو و فراخ دلی کی انتہا کردی اور تمام کفار کو معاف فرما دیا اور انہیں بھی جو زندگی بھر آپؐ کی مخالفت اور نقصان پہنچانے کے درپے رہے ان کو بھی معاف فرما دیا۔

آپ ؐ ہی کے اخلاق کریمہ اور عفو درگزر کی حکمت ِ عملی سے بڑے سے بڑا دشمن آپؐ سے مرعوب ہوجاتا تھا۔ جانی دشمن اسلام کے پیروکار بنتے گئے، حضور ؐ نے جنگوں میں تشدد اور مُثلہ بنانے سے منع فرمایا، جو دورِ جاہلیت میں روا تھے۔ آپ ؐ نے عساکر کو ہدایت فرمائی کہ عورتوں، بوڑھوں، سفیروں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔

حدیثِ مبارکہ ہے کہ ’’میری امت کے دو طبقے اصلاح کر لیں تو امت کی اصلاح ہوجائے گی اور اگر یہ دو طبقے فاسد ہوئے تو امت بھی فاسد ہوجائے گی۔ یہ دو طبقے کون سے ہیں ایک علما اور دوسرے حکم ران( کتاب بحار الانوار)۔

ایک اور مقام پر فرمانِ رسالت ؐ ہے کہ’’ بہترین لوگ وہ ہیں، جن کے اخلاق اچھے ہوں، جو لوگوں سے محبت کرتے ہوں اور لوگ بھی ان سے دوستی رکھتے ہوں ( مستدرک الوسائل)۔

ایک حدیث میں ہے کہ’’ جو جنت کا شوق رکھتا ہے نیکی کے کاموں میں جلدی کرے (کنزالاعمال)۔

خداوندِ عالم ہمیں پیغمبر اسلامؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔