(آؤ پڑھاؤ) - آگاہی اور شعور ہے تعلیم سے جناب

شہناز سلطانہ  اتوار 4 جنوری 2015
مس یہ سب آپ کی محنت کا نتیجہ ہے ورنہ میں نے تو آوارہ گردیوں میں اپنی زندگی ضائع کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ فوٹو؛ اسٹاک امیجز

مس یہ سب آپ کی محنت کا نتیجہ ہے ورنہ میں نے تو آوارہ گردیوں میں اپنی زندگی ضائع کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ فوٹو؛ اسٹاک امیجز

آپ پڑھی لکھی اور جاب کرنے والی بہو تو لے آئیں ہیں اب خود ہی اس کے نخرے اٹھائیے گا۔

میں اسکول جانے کے لئے تیار ہورہی تھیں اسی وقت میری نند کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔

ارے نہیں بیٹا میں جانتی ہوں میری بہو ایسی نہیں ہے، دیکھو روز ناشتہ بناتی ہیں، رات میں بھی دو وقت کا کھانا بناتی ہے بس دوپہر میں ہمیں روٹیاں ہی تو ڈالنی ہوتی ہیں۔

یہ تو سب شروع شروع کا دکھاوا ہے کچھ سال گزرنے دیں پھر آپ خود سر پکڑ کر روئیں گے۔

اس وقت مجھے اپنی نند کی باتیں سن کر بے حد افسوس ہوا لیکن آج 20 سال گزرنے کے بعد میں بے حد مطمئن ہوں اور مجھے ایک استاد ہونے پر ناز ہے۔ آج وہی نند اپنی بچوں کو میرے پاس ٹیوشن پڑھانے لاتی ہے اور رزلٹ میں نمایاں نمبروں سے کامیابی کے بعد میری تعریفیں کرتے نہیں تھکتی۔

ایک شادی شدہ تعلیم یافتہ عورت کے لئے تعلیمی میدان ہی اپنے جوہر دکھانے کے لئے بہترین جگہ ہے، اور تعلیم ایک بہترین شعبہ ہے جہاں عورت کو نہ صرف عزت، وقار ملتا ہے بلکہ عزت نفس کچلے جانے کا بھی خوف نہیں رہتا۔ کئی سالوں سے تعلیم کے شعبے سے وابستگی نے جہاں مجھے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما اور تخلیقی قوتوں کی تربیت کا موقع دیا ہے وہیں فلسفہ حیات اور مقصد حیات بھی مجھ پر آشکار کیا ہے۔

پایا ہے راز علم سے اس کائنات کا
جانے گا نوجوان بھی مقصد حیات کا
آگاہی اور شعور ہے تعلیم سے جناب
یہ زیست نہیں نام فقط دن اور رات کا

مجھے آج بھی یاد ہے جب میں نے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو میں تعلیم کے شعبے میں قدم رکھنے سے بے حد گھبرا رہی تھی، اپنے علم دوسروں تک منتقل کرنا میری خواہش ہی نہیں بلکہ میرا مقصد حیات بھی تھا۔ پہلے دن اسکول میں قدم رکھتے ہی میرا ٹکراؤ اسد صاحب سے ہوا، وہ گذشتہ 10 سال سے تدریس سے عمل سے وابستہ تھے اور اسکول کے بہترین اساتذہ مانے جاتے، انہوں نے مجھے سمجایا کہ میں بھی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہا تھا لیکن جب یہی بچے پڑھ لکھ اور ایک اعلی مقام حاصل کرکے آپ کے سامنے آکر کھڑے ہوتے ہیں تو یقین کیجئے دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں۔ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں بھی تدریس کے شعبے میں بے حد کامیابی سے فرائض انجام دے رہے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی مستقبل کے معماروں کو سنوارنے میں کسی سے کم ثابت نہیں ہوں گی۔

آج 20 سال بعد میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ میں نے بہت تو نہیں مگر ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم کے ذریعے ایک بہتر مستقبل دینے کی ایک چھوٹی سے کوشش ضرور کی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب میرا ایک طالب علم عمران مٹھائی سے بھرا ڈبہ اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو لئے میرے سامنے کھڑا تھا، وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ ’’مس یہ سب آپ کی محنت کا نتیجہ ہے ورنہ میں نے تو آوارہ گردی میں اپنی زندگی ضائع کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی‘‘۔

کہتے ہیں ہیرے کی اصل پہچان جوہری کو ہی ہوتی ہے، اسی طرح ایک استاد ہی اپنے شاگرد کو صحیح راستہ دکھا سکتا ہے۔ ماں کی گود کے بعد بچوں کی پہلی درس گاہ اس کا استاد ہے۔آج دنیا میں جتنے بھی ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافی اور دیگر ماہرین کی کامیابی کی وجہ معیاری اور اچھی تعلیم ہی ہے۔ تعلیم ہی ہمیں شعور سیکھائی ہیں، اچھا ئی اور برائی میں تفریق کرنا سکھاتی ہے، بڑوں کا ادب، چھوٹوں کا لحاظ، یہاں تک کہ تعلیم ہی ہمیں فرش سے عرش پر لے جاتی ہے، غرض یہ کہ ہمارے ہر عمل سے تعلیم کا معیار جھلکتا ہے ۔ تعلیم ہی ہمارا مقصد حیات کا تعین کرکے ہمیں ایک بہتر اور مثالی انسان بناتی ہے۔

ہر چیز فانی ہے لیکن ایک استاد کا علم رہتی دنیا تک قائم رہے گا، لہذا آج بچوں کو پڑھنا میرے لئے نوکری کا ایک حصہ نہیں ہے بلکہ میں ان معصوموں کی آنکھوں میں مستقبل کی روشن امیدیں دیکھتی ہوں، جو پڑھ لکھ کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا چاہتے ہیں۔

ان تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ ان تمام خواتین اور مردوں کا منتظر ہے جو اس قوم کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ایک بہتر مستقبل کی خواہاں ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں عزت، وقار، پیسہ اور عبادت ہر چیز میسر ہے صرف ضرورت خلوصِ نیت کی ہے۔ بحیثیت ایک ماں اور استاد مجھے فخر ہے کہ میں تعلیم جیسے بہترین شعبے سے وابستہ ہوں، اور ہر روز دنیا میں علم کے فروغ سے نیا دیا روشن کرنے میں چھوٹا سا ہی سہی لیکن ایک بے حد اہم کردار ادا کررہی ہوں۔ اس موقع پر اقبال کا ایک شعر عرض کرتی چلوں؛

جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کردے

یہ بلاگ ’علم آئیڈیاز‘ کے اشتراک سے ایکسپریس کی شروع کردہ مہم (آو پڑھاو، جو سیکھا ہے وہ سیکھاو) کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستانی طلبہ کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے۔

تو آئیے ہماری اِس مہم میں ہمارا حصہ بنیے۔ اور ہر لمحہ باخبر رہنے کے لیے ہماری ویب سائٹ دیکھیے،  فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایکسپریس کے پیجز کے ذریعے آگاہ رہیے۔ پڑھانے کے بہترین طریقے سیکھیں اور ہم سے اپنے اساتذہ کی متاثر کن کہانیاں شئیر کیجیے۔


ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔