آئین میں 21ویں ترمیم کی منظوری

پاکستان اس وقت جس بدترین دہشت گردی کا شکار ہے، اس سے نبٹنے کے لیے بعض مشکل فیصلے درکار تھے۔


Editorial January 06, 2015
ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے، اس وقت سوال جمہوریت یا آمریت کا نہیں ہے بلکہ ملک کی بقا کا ہے، پاکستان کو بچانے کے لیے مشکل فیصلے ضروری ہو گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاست میں اگلے روز ایک انتہائی اہم پیش رفت ہوئی جب آئین میں 21 ویں ترمیم کو قومی اسمبلی اور سینیٹ نے متفقہ طور پر منظور کر لیا، ایک روز قبل ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ معاملہ طوالت اختیار کر جائے گا کیونکہ 21 ویں آئینی ترمیمی بل کو پیر کو قومی اسمبلی میں پیش ہونا تھا لیکن اسے منگل کو تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔

جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے فوجی عدالتوں کے قیام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا،جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی اسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا۔پیپلز پارٹی بھی گومگو کا شکار نظر آتی رہی۔البتہ ایم کیو ایم کا موقف بہت واضح تھا۔21ویں آئینی ترمیمی بل میں سے بعض الفاظ کو نکالنے کی باتیںبھی ہوئیں لیکن منگل کو سارے خدشات ختم ہو گئے اور ایک ہی روز میں دونوں ایوانوں(قومی اسمبلی اور سینیٹ) نے 21 ویں آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور کر لی۔ یوں ملک میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے فوجی عدالتوں کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی۔

پاکستان اس وقت جس بدترین دہشت گردی کا شکار ہے، اس سے نبٹنے کے لیے بعض مشکل فیصلے درکار تھے۔ فوجی عدالتوں کا قیام بھی ایسا ہی ایک مشکل فیصلہ ہے۔ جمہوری حکومت اور دیگر پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے حالات کی نزاکت کو سمجھا اور فوجی عدالتوں کا قیام قبول کر لیا۔یقیناً یہ بڑی اہم پیش رفت ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو کچلنے کے لیے سخت اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات مشاہدے میں آ رہی ہے کہ جو دہشت گرد گرفتار ہوئے ،ان میں سے متعدد عدالتوں سے رہا ہو گئے۔

یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات سننے سے بھی احتیاط برتی جاتی تھی۔اس صورت حال کا فائدہ دہشت گردوں کو ہو رہا تھا۔ پاکستان میں اس وقت بحث یہ چل رہی ہے کہ کیا جمہوری سسٹم میں فوجی عدالتوں کا قیام مناسب ہے۔ تقریباً تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی قیادت یہی کہہ رہی ہے کہ فوجی عدالتوں کا فیصلہ بادل نخواستہ قبول کر رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں دل سے فوجی عدالتوں کا قیام نہیں چاہتیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ملک کی جمہوری قوتوں کے پاس دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں سے نبٹنے کا کیا طریقہ یا فارمولا ہے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سب کو معلوم ہے۔

ملک میں ایک جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کر چکی ہے اور دوسری کو تقریباً پونے دو برس ہونے والے ہیں، اس دوران سوائے طالبان سے مذاکرات کے کوئی آپشن سامنے نہیں آیا، سوات اور جنوبی وزیرستان میں جو آپریشن ہوئے، وہ بھی اس وقت ہوئے جب پانی سر سے گزر گیا تھا، موجودہ حکومت جب برسراقتدار آئی تواس نے بھی طالبان سے مذاکرات کا آپشن اختیار کیا ، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی مذاکرات کے حامی تھے لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی، اس کی وجوہات سے بھی سب آگاہ ہیں۔ ملک کی جمہوری قوتوں کو خود احتسابی کے عمل سے بھی گزرنا چاہیے۔انھیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں۔

تب ہی وہ چیلنجوں سے نمٹ سکتی ہے۔یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جمہوری قوتوں نے سیاسی میدان میں اپنے پارٹی ورکروں کی ذہنی اور نظریاتی تربیت نہیں کی، سیاسی جماعتوں کے ورکرز بھی انتہا پسندی کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے ورکروں کو انتہا پسندوں کے خلاف تیار کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جمہوری حکومتوں نے انتہا پسندی کو فروغ دینے والے قوانین کو بھی تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی تعلیمی نصاب میں خاطر خواہ تبدیلیاں کیں۔ ایسی صورت میں دہشت گردوں اور انتہا پسندی کے خلاف کیسے لڑا جا سکتا تھا، لہٰذا وقت کا تقاضا یہ ہے کہ جمہوری قوتیں فراخ دلی سے حقائق کا ادراک کریں، دہشت گردی کے خلاف جنگ بے دلی یا نظریاتی کنفیوژن سے نہیں جیتی جا سکتی۔ اس کے لیے ذہنی اور نظریاتی طور پر تیار ہونا لازم ہے، یہ امر خوش آیند ہے کہ بادل ناخواستہ ہی سہی جمہوری قوتوں اور فوج کی ترجیحات میں یکسانیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

جیسے جیسے وقت گزرے گا یہ یکسانیت زیادہ واضح ہو گی۔ پاکستان کے نظام انصاف میں کئی خامیاں ہیں، انھیں دور کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے، اس وقت سوال جمہوریت یا آمریت کا نہیں ہے بلکہ ملک کی بقا کا ہے، پاکستان کو بچانے کے لیے مشکل فیصلے ضروری ہو گئے ہیں۔ شاید یہی وہ ادراک ہے جس نے فوج اور سیاستدانوں کو ایک صفحے پرلاکھڑا کیاہے اور اس کا مظاہرہ اگلے روز قومی اسمبلی اور سینیٹ میںدیکھنے میں آیا، جب ان دونوں ایوانوں نے 21 واں ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ جہاں تک فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرنے والوں کا سوال ہے تو یہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ حالات کی سنگینی کو سمجھ جائیں گے اور یوں پوری قوم دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف متحد ہو جائے گی۔

مقبول خبریں