دل پھینک جواہر لعل پہلاحصہ

روتی دھوتی آنسو پروتی کنیا لوٹ آئی۔ باپ نےاسے’’اصلاح‘‘ کےلیےاپنے نئے دوست موہن داس کرم چند گاندھی کے آشرم بھیج دیا۔


تشنہ بریلوی April 07, 2015
[email protected]

سترہ سالہ دوشیزہ حسن و جمال کا ایسا نمونہ تھی کہ کوئی بھی دیکھے تو بول اٹھے:

رُخ پر ہیں رقص فرما کشمیر کی بہاریں
حوریں اِرم سے آکر زُلفیں تری سنواریں

لڑکی واقعی کشمیرن تھی ۔ لڑکا بھی بہت دلکش چہرے کا مالک تھا ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور ساتھ ہی دلوں کا بھی۔اب شادی میں کیا رکاوٹ ہوسکتی تھی مگر شادی میں تو رکاوٹ ہی رکاوٹ تھی اس لیے کہ لڑکی کشمیرن برہمن زادی تو لڑکا مسلمان!

اردو اور فارسی کے پرستار پنڈت موتی لعل نہرو ایک بہت امیر اور کامیاب بیرسٹر تھے بعد میں وہ دوبارکانگریس پارٹی کے صدر بنے ۔ انھوں نے ایک اخبا ر بھی نکالا جس کا نام Independence تھا سید حسین نامی ایک نوجوان ان کا اسسٹنٹ تھا جو اپنے '' باس '' کی طرحدار بیٹی وجے لکشمی پر فدا ہوگیا۔مگر دونوں کی شادی تو ممکن نہیں تھی۔

]

''ظالم سماج'' ایسے بندھن کو ہرگز قبول نہیں کرسکتا ۔اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا اس گھٹے ہوئے ماحول سے نکل کر یورپ کے آزاد ماحول میں زندگی گزاری جائے لہذا وجے لکشمی نہرو اور سید حسین سمندری جہاز پکڑنے کے لیے بمبئی پہنچ گئے تاکہ سوئز کے اُس پار نئی زندگی کا آغاز کریں۔ مگر جہاز پکڑنے کے بجائے وہ خود پکڑ لیے گئے ۔

روتی دھوتی آنسو پروتی کنیا لوٹ آئی۔ باپ نے اسے ''اصلاح'' کے لیے اپنے نئے دوست موہن داس کرم چند گاندھی کے آشرم بھیج دیا۔ جہاں دریائے سابر متی پر ساری مستی ختم ہوگئی پھر جلد ہی کنیا دان بھی ہوگیا اور سرکش لڑکی کا بیاہ ایک مرہٹے بیرسٹر پنڈت سیتا رام سے ہوگیا ۔

وجے لکشمی اور سید حسین کے فرار کے موقعے پر اکبر الہٰ آبادی نے ایک نہایت مناسب شعر لکھا

دختِ مہرو کو لے کے صاف اڑا
''انڈی پینڈنس'' اسی کو کہتے ہیں

یاد رہے کہ اکبر الہٰ آبادی پنڈت موتی لال نہرو کے دوست تھے اور ان کے مکان ''عشرت منزل'' ہی کے ترجمے کے طور پر پنڈت جی کے گھر کا نام ''آنند بَھوَن'' رکھاگیا تھا ۔

وجے لکشمی پنڈت نے نوے سال کی عمر پائی لیکن وہ سید حسین کو بھلا نہیں سکیں۔ مزے کی بات کہ وجے لکشمی کی بیٹی نین تارا بھی ایک مسلمان لڑکے کو پسند کرنے لگی۔ یہ تھا انسپکٹر آف اسکولز اسد اللہ کاظمی کا بیٹا نور اللہ کاظمی۔ مگر ان دونوں کی بھی شادی نہ ہوسکی۔

جواہر لال لڑکپن ہی سے حسن پرست تھے ۔ انھوں نے انگلینڈ میں سات سال گذارے اور بہت خوش رہے ۔ وہاں کے ''آزاد '' ماحول میں کئی گرل فرینڈز بھی ان کی زندگی میں آئیں جب موتی لعل کو جواہر لال ہی کے خطوں کے ذریعہ ان '' حرکتوں'' کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے بیٹے کو وہی نصیحت کی جو اکبر الہٰ آبادی نے اپنے صاحبزادے عشرت کے لیے کی تھی کہ '' یورپ کی حسیناؤں سے دل مت لگاؤ اور ہندوستان میں بیاہ رچاؤ'' موتی لال نے بھی لکھا کہ تمہاری پتنی تو صرف کشمیری برہمن لڑکی ہی ہوسکتی ہے ۔ اس طرح دہلی کے بہت دولت مند کشمیری سیٹھ جواہر مل کی لڑکی کملا کی شادی جواہر لال سے ہوگئی ۔ کملا کے دونوں طرف جواہر ، باپ بھی جواہر اور پتی بھی جواہر ۔ پھر شادی میں جواہرات کی بھر مار کیوں نہ ہوتی ۔

مگر جواہر لال کی جولانیاں برقرار رہیں۔ وہ اپنی سیدھی سادی بیوی کے مقابلے میں اپنی طرح دار بہن وجے لکشمی کے زیادہ قریب تھے ۔ دونوں کے درمیان Platonic Loveتھی جو کبھی Appetentنہ بنی (لارڈ بائرن کی محبت کی طرح) لیکن یہ کشش کملا کو بہت کھلتی تھی اور بعد میں جواہر لعل کی بیٹی اندرا بھی اپنی بڑی پھپھو سے ''رقیبانہ'' نفرت کرنے لگی تھی ۔ اندرا اپنے خطوں میں اپنے باپ کو ''ڈارلنگ'' لکھتی تھی ۔

جواہر لال کی تعلیم اردو سے شروع ہوئی تھی پھر وہ انگلستان جا کر انگلش کے سحر میں گرفتار ہوئے ۔ وہ بہت شاندار انگلش لکھتے تھے لیکن اردو سے ان کا تعلق قائم رہا خصوصاً شاعری سے ۔ انھوں نے اپنے دوست فراقؔ گورکھپوری کے ساتھ مشاعروں میں بھی شرکت کی اور جوشؔ ، جگر ؔ' ساغرؔ نظامی اور بچن ؔجی وغیرہ کے قریب آگئے۔ جب بمبئی کی ایک محفل میں پروڈیوسر سہراب مودی کی ہیروئن اہلیہ مہتاب نے جواہر لال کے سامنے یہ مصرع پڑھا : تم سلامت رہو ہزار برس۔ تو انھوں نے فوراً دوسرا مصرع سنایا ۔ ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار ۔ وہ اداکارہ نرگس کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔

جواہر لال کا سارا خاندان جوش و خروش کے ساتھ سیاست میں حصہ لیتاتھا ۔کملا نہرو بہت دھان پان تھی اور بیمار بھی۔پھر بھی وہ سیاسی مظاہرں میں شریک ہوتی اور جان کو خطرے میں ڈالتی تھی ۔ 1930 میں وہ عورتوں کے ایک جلوس کی رہنمائی کرتے ہوئے انگریز سرکار کے خلاف نعرے لگارہی تھی کہ اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ بے ہوش ہو کر تپتی دھوپ میں سڑک پر گر گئی ۔

اب یہاں بنتا ہے ایک فلمی سین ۔ ایک کالج کا ہوسٹل قریب تھا اور لڑکے بڑی بے نیازی سے یہ جلوس دیکھ رہے تھے جب کملا نہرو گری تو ایک سرپھرا لڑکا دیوار سے کود کر آگے بڑھا ۔ کملا کو گود میں اٹھا کر شیڈ میں لے گیا اور فوراً اس پر عاشق ہوگیا ۔ زندگی بھر اس کے قریب رہا اور کملا کی موت کے وقت بھی موجود تھا ۔

یہ تھا ایک پارسی نوجوان فیروز گاندھی جس نے مشہور ادارے لندن اسکول آف اکنامکس میں تعلیم حاصل کی تھی ۔1936 میں کملا نہرو کا انتقال ہوگیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد کانگریس کا سالانہ اجلاس کراچی میں منعقد ہوا ۔اس وقت ایک چھوٹی سڑک کملا نہروکے نام کی گئی ۔ مزار قائد کے قریب یہ سڑک Kamla Nehru Roadاب بھی موجود ہے ۔ یہاں نامور اداکار لطیف کپاڈیا ( کاپڑیا) کا مکان ہے جہاں چند سال پہلے تک یاران میکدہ یعنی انور مقصود ' لطیف کپاڈیا ، کمال احمد رضوی، اسماعیل پپّو وغیرہ کی محفل جمتی تھی اور یہیں ''عتیقہ اوڈھو'' کو اردو سکھا کر اداکارہ کے طور پر لانچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کملا کی رحلت کے بعد فیروز گاندھی اندرا کی طرف متوجہ ہواکیونکہ بیٹی بھی ماں کی جھلک رکھتی تھی ۔ اندرا جو رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن کے آزاد اور رومانی ماحول میں جوان ہوئی تھی فیروز میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی تھی ۔ گرودیو کے اسکول میں اس کی ملاقات نوجوان بلراج ساہنی سے بھی ہوئی تھی جو فیروز سے زیادہ دلکش اور Dashingتھا (یونس خان سے بھی اس کی دوستی تھی)مگر فیروز نے ہمت نہیں ہاری اس امید پر کہ '' حسینہ مان جائے گی'' اور پھر حسینہ واقعی مان گئی ۔

اندرا جنگ کے زمانے میں جرمن مقبوضہ فرانس کے رنگین علاقے Montmartreکے مشہور نائٹ کلب مولین غوژ Moulin Rougeمیںعریاں ڈانس دیکھنے گئی ( وہ بھی کوئی راہبہ تو نہیں تھی) کہ سیڑھیوں پر فیروز نے اس کو پکڑ لیا بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اندرا اس کی '' جسارت '' پر بہت حیران ہوئی اور اس نے ہاں کردی۔

جواہر لال نہرو کو جب خبر ہوئی تو وہ بہت ناراض ہوئے ( بالکل اپنے باپ کی طرح جو وجے لکشمی اور سید حسین کی ''دوستی'' کو برداشت نہیں کرسکے تھے ) اور انھیں اس معاملے میں گاندھی جی سے بھی مدد طلب کی تھی ۔ گاندھی جی نے بچوں کی طرح کھلکھلاتے ہوئے کہا '' وہ چھوکرا گجراتی ہے ۔ میری طرح اور ''گاندھی'' ہے میری طرح ۔میں تو خوش ہوں '' اگر چھوکرے کا نام فیروز حسین ہوتا تو شاید باپو اتنے خوش نہ ہوتے۔جواہر لال سوچ رہے تھے کہ اندرا سے شادی کرنے کے لیے تو راجے مہاراجے بھی تیار ہیں۔ فیروز گاندھی کیوں؟

لیکن اندرا بھی Iron ladyتھی اس نے غیر دلکش اور غیر ہندو سر پھرے گاندھی سے شادی کر ہی لی ۔ واضح رہے کہ ''گاندھی'' گجرات کے عطر فروش خاندانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پاکستان میں بھی بہت سے مسلمان ''گاندھی '' موجود ہیں ۔ اندرا اور فیروزنے بھی ہنی مون کے لیے کشمیر کو منتخب کیا کہ 1942میں یورپ جانا ممکن نہیں تھا ۔

(جاری ہے )

مقبول خبریں