خطیب پاکستان مولانا احتشام الحق تھانوی

عامر وحید  اتوار 12 اپريل 2015
 آج میڈیا کی ترقی کے دور میں میڈیا میں موجود اسلام پسند لوگ خطیب پاکستان کے افکار کو اپنی نیک کوششوں سے میڈیا پر لاکر زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکتے ہیں.فوٹو:فائل

آج میڈیا کی ترقی کے دور میں میڈیا میں موجود اسلام پسند لوگ خطیب پاکستان کے افکار کو اپنی نیک کوششوں سے میڈیا پر لاکر زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکتے ہیں.فوٹو:فائل

اس دنیائے فانی میں بے شمار لوگ آئے اور اپنی مدت حیات پوری کرکے چلے گئے، مگر ایسے خوش نصیب کم ہی ہوں گے جو عوام الناس کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، ایسا ہی ایک نام خطیب پاکستان حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ مولانا احتشام الحق تھانویؒ 1915 میں کیرانہ ضلع مظفر نگر (یوپی انڈیا) میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم کا نام حضرت مولانا ظہور الحق تھا، آپ کا نسب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔

آپ نے حفظ قرآن اٹاوہ میں مکمل کیا، فارسی تعلیم مدرسہ عربیہ میرٹھ سے حاصل کی، ابتدائی عربی تعلیم مشہور دینی درسگاہ مظاہر علوم سہارنپور میں حاصل کی اور اس کے بعد درس نظامی کی تعلیم کی تکمیل کے لیے 1930میں دنیا کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور وہاں سے 1937 میں فراغت حاصل کی اور 1937 میں ہی پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی سند حاصل کی، دوران تعلیم کسی بھی قسم کی سیاست سے دور رہے اور تمام تر توجہ اپنی تعلیم پر صرف کی۔ احتشام الحق تھانوی کے اساتذہ ان کے ذوق حصول تعلیم سے خوش تھے، مولانا کا روحانی و نسبی تعلق حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے تھا۔

مولانا احتشام الحق نے 1939سے نئی دہلی میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کیا، اسی زمانے سے حضرت کی نامور سیاسی شخصیات سے بھی ملاقات رہی جن میں خان لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشتر وغیرہ جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ 23 مارچ 1940 کو جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو مولانا اشرف علی تھانوی نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اس قرارداد کا خیرمقدم کیا اور حصول پاکستان کی کوششوں میں پیش پیش افراد کے عقائد و اعمال کی اصلاح کی خاطر مجلس دعوۃ الحق کی بنیاد رکھی۔ حضرت 1930سے اگست1947 تک اللہ کے فضل سے اسی مجلس دعوۃ الحق میں تبلیغی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

اس دوران مولانا کو 1945 کے الیکشن میں شرکت کے لیے نوابزادہ خان لیاقت علی خان کی جانب سے پیغام موصول ہوا جس پر حضرت نے معذرت کرلی اور سیاست میں براہ راست شرکت سے دور رہے۔ حضرت نے پاکستان کی حمایت میں جابجا تقریریں کیں اور دینی مقصد سے متعلق پاکستان کا تصور پیش کرتے رہے مگر اس کے باوجود اپنے اکابر کے مشورے پر انھوں نے نہ کبھی الیکشن میں حصہ لیا اور نہ کسی سیاسی جماعت میں شرکت قبول کی۔

انھوں نے 1940 سے 1947 تک صرف تبلیغی جدوجہد میں اپنا وقت صرف کیا۔9اگست 1947 میں جب تقسیم پاک و ہند کی منزل قریب آگئی تو مولانا کراچی تشریف لائے اور کچھ عرصے بعد جیکب لائن کے اسی علاقے میں تشریف لائے جہاں آج جامع مسجد تھانوی واقع ہے، جو اس وقت ایک چھوٹی مسجد ہوتی تھی۔ حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی نے ہندوستان سے آئے بے یارومددگار مہاجرین کی آبادکاری میں نوابزادہ خان لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر اہم کردار ادا کیا۔

مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے پاکستان میں دارالعلوم دیوبند اور جامعہ ازہر کی طرز کے پہلے پاکستانی مدرسے ’’دارالعلوم ٹنڈوالٰہ یار‘‘ میں جید علمائے کرام کو جمع فرمایا، آج جو پاکستان بھر میں مدارس دینیہ نظر آتے ہیں وہ حضرت ہی کے لگائے ہوئے درخت دارالعلوم ٹنڈوالٰہ یار کی شاخیں ہیں۔جب 1952 میں فتنہ قادیانیت اٹھا تو اس میں بھی مولانا احتشام الحق تھانوی نے مرکزی کردار ادا کیا، قادیانیت کے خلاف مولانا احتشام الحق تھانوی نے تمام مکاتب فکر کے جید علما جن میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مفتی جعفر حسین مجتہد، مولانا محمد یوسف کلکتوی اور مولانا لال حسین اختر کے ساتھ مل کر آل پارٹیز مسلم کانفرنس بلائی اور اس کانفرنس میں طے کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔

اسی تحریک کی بنیاد پر بالآخر 1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ آج قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کا سہرا کچھ لوگ اپنے سر باندھتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔مولانا احتشام الحق تھانوی نے 1952 اور 1956 کی دستور ساز میں بھی اپنے دینی منصب کے لحاظ سے اہم کردار ادا کیا۔ اپنی مسلسل محنت اور انتھک کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے 1956 کا آئین پاس کرانے میں کامیابی حاصل کی۔

گوکہ یہ دستور سابقہ متفقہ دستور نہیں تھا مگر یہ دستور کافی حد تک اسلامی تھا اور اسی دستور کے تحت لفظ اسلام پاکستان کا جزو بنا اور پورا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگیا، جب کہ اس سے قبل صرف جمہوریہ پاکستان ہی کہا جاتا تھا۔پاکستان میں رویت ہلال کمیٹی کے قیام میں بھی مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جب ایوب خان کے دور حکومت میں عائلی کمیشن تشکیل دیا گیا تو مولانا تھانوی اس کمیشن کے واحد عالم رکن تھے۔

مولانا نے عائلی کمیشن میں اختلافی نوٹ لکھا اور اس کے خلاف آواز حق بلند کی تو حکومت نے چاند کے مسئلے کو اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمن اور محکمہ موسمیات کے حوالے کردیا، جب خطیب پاکستان نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو حضرت کو 29 فروری 1967 میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں مگر مولانا نے کبھی حق گوئی اور صداقت سے منہ نہ موڑا۔وفاق المدارس عربیہ پاکستان کی بنیاد رکھنے میں بھی مولانا احتشام الحق تھانوی نے مرکزی کردار ادا کیا، جس کا مقصد مدارس دینیہ کی شیرازہ بندی، درس و تدریس، نظم و نسق اور نصاب کتب و تربیت کا طریقہ کار وضع کرنا تھا۔

انھوں نے ریڈیو پاکستان پر ایک عرصے تک عوام الناس کی اصلاح کی خاطر درس قرآن اور درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا اور اخبارات میں قرآن کریم کی تفسیر کا سلسلہ جاری رکھا۔ مولانا احتشام الحق تھانوی 26 مارچ 1980 کو کراچی سے دہلی روانہ ہوئے اور وہاں سے دیوبند گئے اور وہاں سے تھانہ بھون اور بھارت کے مختلف شہروں کا تبلیغی دورہ کیا۔  مولانا تقریباً پچیس سال بعد مدراس تشریف لے گئے تھے اور متعدد شہروں میں وہاں کی انتظامیہ نے جلسے اور دیگر پروگرامز منعقد کیے تھے۔

خطیب پاکستان کے مداحوں اور عشاق نے حضرت کے روحانی علوم و فیوض سے خوب استفادہ کیا اور 3 اپریل سے 10 اپریل تک خطیب پاکستان کو روز و شب مصروف رکھا، 10 اپریل 1980 کو بعد نماز عشا ایک عظیم الشان سیرت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مولانا کے سحر انگیز بیان نے اہل مدراس کے ایمان کو نئی جلابخشی، یہ خطاب اور عام اجتماع مولانا احتشام الحق تھانوی کی زندگی کا آخری خطاب اور آخری اجتماع بھی ثابت ہوا اور 11 اپریل 1980، نماز جمعہ کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک حضرت کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

مولانا احتشام الحق تھانوی کا جسد خاکی خصوصی پرواز سے دہلی سے کراچی لایا گیا۔ خطیب پاکستان کا مدفن جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کے پہلو میں واقع ہے۔آج میڈیا کی ترقی کے دور میں میڈیا میں موجود اسلام پسند لوگ خطیب پاکستان کے افکار کو اپنی نیک کوششوں سے میڈیا پر لاکر زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکتے ہیں اور عوام الناس کو بھی استفادہ کے موقع مل سکتا ہے، نئی نسل کو حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی کے پیغام حق سے آگاہ کیا جائے، جس سے نئی نسل آج کے فتنوں کے دور میں علمائے حق کو پہچان سکے اور علمائے سُو کے فتنوں سے بچ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔