سائنس دانوں نے پروٹین سے بھرپور پَھلیاں تیار کرلیں

عبدالریحان  جمعرات 23 اپريل 2015
نئی پھلیوں سے غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد ملے گی، ماہرین   فوٹو : فائل

نئی پھلیوں سے غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد ملے گی، ماہرین فوٹو : فائل

دنیا کے کئی ممالک غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بالخصوص تیسری دنیا کے باشندوں کی اکثریت کو ضروری اور معیاری خوراک میسر نہیں ہے۔اسی سلسلے میں سائنس دانوں نے پھلیوں کی تیس نئی اقسام کا کام یاب تجربہ کیا ہے، جو انتہائی گرم موسم میں بھی کاشت کی جا سکتی ہیں۔ پروٹین سے بھرپور یہ پھلیاں غریب ترین ممالک کو غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد دیں گی۔

ماہرین کے مطابق غذائی اجناس سے متعلق ان کا یہ تجربہ نہایت اہم اور سود مند ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خوراک کی قلت نے ترقی پذیر ممالک میں چالیس کروڑ انسانوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ یہ پھلیاں توانائی سے بھرپور ہوں گی اور بڑی حد تک گوشت کی کمی کو پورا کریں گی تاہم سائنس دانوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ موسمی تغیرات کے نتیجے میں درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے کے باعث 2050 تک ان پھلیوں کی کاشت کے لیے موزوں رقبہ سکڑ کر نصف رہ جائے گا، جس سے ایک مرتبہ غذائی قلت کا مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔ پھلیوں یا بینز پر تحقیق کرنے والے ماہر سائنس داں اسٹیو بیبے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں چھوٹے رقبے پر کاشت کاری کرنے والے کسان سازگار ماحول ہونے کے باوجود پہلے ہی کئی مشکلات کا شکار ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کاشت کار مزید پریشانی سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس کا اثر لاکھوں انسانوں پر پڑے گا جو کم خوراکی کا شکار ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینا ہو گی۔  نئی پھلیوں کی بہت سی اقسام خشک سالی اور بہت زیادہ درجۂ حرارت میں بھی کاشت کی جا سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ان اقسام کو مختلف پھلیوں کی کراس بریڈنگ کے عمل سے تیار کیا گیا ہے اور ان میں جینیاتی تبدیلی کا کوئی عمل کارفرما نہیں ہے۔ ان تیس نئی اقسام کے تجربے کے لیے سائنس دانوں نے پھلیوں میں پائے جانے والے ہزاروں مختلف اجزا کا تجزیہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کس طرح کی ان کے ذریعے انتہائی گرم ماحول میں بھی کام یابی سے کاشت کی جانے والی پھلی حاصل کی جا سکتی ہے۔

CGIAR نامی ریسرچ گروپ نے اس کام یاب تجربے کے بعد بتایا ہے کہ ان نئی پھلیوں میں آئرن کی بہت زیادہ مقدار بھی پائی جاتی ہے، جس سے غذائیت کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

محققین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں اور درجۂ حرارت میں اضافے کے سبب آئندہ لاطینی امریکا اور زیریں صحارا کے خطے کے یوگنڈا، ہیٹی، برازیل، ہنڈوراس، کینیا، تنزانیہ اور عوامی جمہوریہ کانگو جیسے ممالک میں پھلیوں کی کاشت کاری کا سلسلہ شدید متاثر ہو گا۔ زرعی سائنس کے ماہرین کے مطابق بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لیے کسان کو تیار کرنا ہو گا۔

اس طرح وسیع رقبے پر اور بہتر فصل حاصل کی جاسکتی ہے جو غذائی قلت کو دور کرے گی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطاہرین نے پھلیوں کی ان نئی اقسام کے کام یاب تجربے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ زراعت میں اختراع اور تجربات انتہائی ضروری ہیں جو دنیا بھر میں کم خوراکی کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔