ملالہ یوسف زئی پر حملہ لمحہ فکریہ

اس نہتی لڑکی نے سوات کے وحشت کدے میں طالبان کے ظلم وجبر کے سامنے سر نہیں جھکایا


Editorial October 10, 2012
ملالہ یوسف زئی نے مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے ایک میڈیا ہائوس کے لیے ڈائری لکھی جس میں اس نے اپنی ہم عمر طالبات کے تعلیمی اور ذہنی عذابوں کی کہانی بیان کی۔ فوٹو: فضل خالق

سوات کے مرکزی شہرمینگورہ میں نامعلوم افراد کی اسکول بس پرفائرنگ سے قومی امن ایوارڈ یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی سمیت 3 طالبات زخمی ہوگئیں۔

ملالہ یوسفزئی کے سر پرگولی لگی، اسے آرمی کے ہیلی کاپٹر میں سی ایم ایچ پشاور منتقل کردیا گیا، اطلاعات کے مطابق ڈاکٹروں نے اس کی گردن میں پھنسی گولی نکال لی ہے ، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ملالہ کی زندگی کے لیے اگلے آٹھ سے دس روز نہایت اہم ہیں، پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے واقعے کے بعد متعدد مشتبہ افراد کوگرفتارکر لیا،کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی، صدرآصف علی زرداری اور وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ صدر نے کہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ انتہا پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔

وزیر اعظم نے زخمی بچوں کو بہتر علاج مہیا کرنے کی ہدایت کی ۔ ملک بھر کے سیاسی رہنمائوں کی جانب سے بھی ملالہ یوسف زئی پر فائرنگ کی شدید مذمت کی گئی۔ امریکا نے کمسن طالبہ ملالہ یوسف زئی سمیت 3 کمسن طالبات پر طالبان کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ظالمانہ اور بزدلانہ فعل قرار دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ نڈر و بیباک ملالہ یوسف زئی المعروف گل مکئی طالبان کی برپا کی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے خواتین کے تعلیمی حقوق، آزادی اظہار اور سیاسی و سماجی جبر کے خلاف جدوجہد کی ایک قابل تقلید مثال اور بے خوفی کا ایک روشن حوالہ بن چکی ہے۔

اس نہتی اور اکیلی لڑکی نے سوات کے وحشت کدے میں لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کے جبری احکامات و قوانین اور ظلم وجبر کے سامنے سر نہیں جھکایا ،اپنے اور دیگر بچیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کی آواز بلند کی جس کی اسے ایک وحشیانہ حملے کی صورت میں اندوہ ناک قیمت ادا کرنا پڑی۔تاہم اﷲ کا شکر ہے وہ بچ گئی،آج دنیا بھر کے امن پسندوں کی جانب سے اس کی زندگی کی دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔اس سانحے سے ایک طرف وطن عزیز کو لاحق انتہا پسندی اور بربریت کے خطرات کی نشاندہی ہوتی ہے تو دوسری طرف شورش اور جنگ زدہ قبائلی علاقوں میں ظلمت ، جہالت اور اسلام کے ضابطہ حیات کی خود ساختہ جنگجویانہ تفسیرات وتصریحات کے خلاف مصروف عمل ان جواں سال ہیروز اور دلیر خواتین اور طالبات کی سلامتی کے حوالے سے حکام کے تساہل، مجرمانہ غفلت اور سیکیورٹی لیپس کا معاملہ بھی سامنے آتا ہے۔

مسئلہ ایک طرف طالبان کی دہشت گردی اور اپنا ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرانے کے خبط کا ہے جب کہ دوسری طرف گڈ گورننس کے فقدان اور بے محابہ کرپشن کی خبروں کے باعث عوام میں بددلی اور جرائم کے طوفان کے باعث مایوسی بڑھ رہی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ طالبان نے سوات اور دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑایا ، خواتین قتل ہوتی رہیں، بیگناہ انسانوں کو خود کش دھماکوں سے موت کے گھاٹ اتارا گیا، ریاستی رٹ چیلنج کی جاتی رہی،ایسی درد انگیز اور لرزہ خیز صورتحال میں ملالہ نے علم بغاوت بلند کیا توانتہا پسندوں کی ہٹ لسٹ سے وہ بچ کیسے سکتی تھیں۔کیا اتنی سی بات قانون نافذ کرنے والے ارباب بست وکشاد کی سمجھ میں نہیں آئی جو خود بنکرنما بنگلوں میں رہتے ہیں۔

جب باہر نکلتے اور سفر کرتے ہیں تو ان کا حفاظتی کانوائے دیکھ کر ان دلگرفتہ خاندانوں کے افراد خون کے آنسو روتے ہیںجن کے لخت جگر دہشت گردوں کی کارروائیوں کی نذر ہوتے رہے ہیں ۔ ملالہ اور اس کی ہم جماعتوں اور دیگر بہادر لڑکیوں کی تو ہمہ وقت سلامتی کی فکر حکمرانوں کو ہونی ہی چاہیے تھی جن پر دہشت گردوں نے موقع ملتے ہی حملہ کردیا ،کیونکہ ملک کے مختلف علاقوں میں بسوں سے مسافروں کو اتارکر ان کی شناخت کے بعد مطلوبہ مظلوم مسافروں کو بیدردی سے ہلاک کرنے کی لاتعداد وارداتیں ہوئیں۔

ان مسافروں کا کیا قصور تھا بجز اس کے کہ وہ پاکستان کا دم بھرتے تھے اور ان میں زیادہ ترغریب محنت کش تھے۔ اس لیے ملالہ کی اسکول بس کی سیکیورٹی تو غیر معمولی ہونے کے ساتھ ساتھ اس لیے بھی لائق توجہ تھی کہ اس میں مستقبل کی ایک بنت پاکستان اپنی ہونہار ساتھیوں کے ساتھ موجود تھی۔یہ بچیاں ملک و قوم کی معمار اور نئی نسل کے خوابوں کی سفیر اور امین تھیں ۔ڈی آئی جی مالاکنڈ ڈویژن اخترحیات خان اور ڈی پی او سوات رسول شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ ملالہ یوسفزئی اپنے اسکول سے چھٹی کے بعد دوسری لڑکیوںکے ہمراہ اسکول وین میں گھر جارہی تھی کہ علاقے گل کدہ کے قریب دونامعلوم نقاب پوشوں نے گاڑی کو روک کر ملالہ یوسفزئی کا پوچھا اور بعد ازاں فائرکھول دیا جس سے ہونہاربچی سر پر گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگئی جب کہ اس کے ساتھ بیٹھی دو بچیاں شازیہ اورکائنات بھی ہاتھ اور پائوں پرگولیاں لگنے سے خون میں نہا گئیں ۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ملالہ یوسف زئی پرحملہ اس لیے کیا گیا کیوں کہ اس کے خیالات طالبان کے خلاف تھے۔ چونکہ ملالہ اپنی طالبان مخالف فکرکا برملا اظہار بھی کرتی رہی لہٰذا اس پر حملہ کیا گیا ہے۔ترجمان نے مزیدکہا کہ وہ ملالہ کوکیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لیںگے، انتہا پسندوں کو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی نے امریکی صدر بارک اوباما کی تعریف کی تھی۔ پاکستان کی ریاستی اور نظریاتی اساس پر حملہ آور قوتوں کے عزائم اس واقعے سے مزید شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے ہیںجو اس بات کا عندیہ ہے کہ انتہا پسند انتقام اور بربریت کی کس حد تک جا سکتے ہیں۔

14 سالہ ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہے۔ سوات میں 2009 ء میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولوی فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جب کہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرات کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے 'گل مکئی' کے فرضی نام سے ایک میڈیا ہائوس کے لیے ڈائری لکھی جس میں اس نے اپنی ہم عمر طالبات کے تعلیمی اور ذہنی عذابوں کی کہانی بیان کی۔

2009 ء میں وہ 11 برس کی تھی جب تحریک شریعت محمدی اور خیبر پختونخوا کی اس وقت کی صوبائی حکومت کے مابین ایک معاہدہ ہوا۔ملالہ اور ان کے والد ضیاء الدین نے امن کی امید کی خاطر اس کی حمایت کی ،مگر دہشت گردی نے ان دونوں کے خواب ریزہ ریزہ کردیے ۔حکومتِ پاکستان نے انھیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن ایوارڈ بھی دیا تھا۔ انھیں 2011 ء میں 'انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز' کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انھوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی بھر پور مخالفت کی تھی۔دہشتگردی آج عالمی ناسور بن چکی ہے ، افغانستان کی صورتحال کے پاکستان کی سیاسی و سماجی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں،وطن کی بیٹی ملالہ پر حملہ جمہوریت پر حملہ ہے اس لیے خطے میں امن کے لیے ساری جمہوری اور سیاسی قوتیں دہشت گردی کے خلاف ایک ہوجائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے