طیارہ ہائی جیکنگ کیس ایٹمی دھماکوں کی راہ میں حائل مجرم’’یوم تکبیر‘‘ پر پھانسی چڑھیں گے

پاکستان نے 13 مئی 1998 کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے تھے


Raheel Salman May 26, 2015
پاکستان نے 13 مئی 1998 کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے تھے. فوٹو: فائل

طیارہ ہائی جیکنگ کیس کے مجرموں کو پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی تاریخ پر پھانسی پر لٹکایا جائے گا، تینوں مجرم طیارہ ہائی جیک کرکے پاکستان کو صوبہ بلوچستان میں ایٹمی دھماکوں سے روکنا چاہتے تھے۔

اب وہ ''یوم تکبیر'' کے موقع پر ہی پھانسی چڑھیں گے۔ پاکستان نے 13 مئی 1998 کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے تھے، ہائی جیکرز طیارے کو بھارت لے جانا چاہتے تھے لیکن پائلٹ نے کمال ہوشیاری سے جہاز کو حیدرآباد ایئرپورٹ اتار لیا۔ 25 مئی 1998 کو گوادر میں تربت ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے فوکر طیارے فلائٹ نمبر PK-554 کو 3 ہائی جیکرز شبیر بلوچ، صابر بلوچ اور شاہ سوار بلوچ نے اسلحے کے زور پر ہائی جیک کرلیا، طیارے میں33 مسافر اور عملے کے5 ارکان شامل تھے۔

ملزمان فرضی ناموں سے سفر کررہے تھے، ملزمان طیارے کو بھارت لے جانا چاہتے تھے اور وہاں پہنچ کر یہ دبائو ڈالنا تھا کہ پاکستان 13 مئی کو بھارت کی جانب سے کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں صوبہ بلوچستان میں ایٹمی دھماکے نہ کرے لیکن پاکستان نے28 مئی کو ایٹمی دھماکے کرکے خطے میں بھارتی کی برتری خاک میں ملا دی، پائلٹ کمال ہوشیاری سے جہاز کو حیدرآباد ایئرپورٹ اتارنے میں کامیاب ہوگیا جبکہ ہائی جیکرز کو اسی گمان میں مبتلا رکھا کہ جہاز بھارت پہنچ گیا ہے۔ بعدازاں ڈرامائی انداز میں کی جانے والی کئی گھنٹے کی بات چیت کے بعد بغیر کسی جانی نقصان کے ہائی جیکرز کو گرفتار کرلیا گیا۔

ملزمان کے خلاف تھانہ سائٹ حیدرآباد میں مقدمہ الزام نمبر 22/98 بجرم دفعہ 402-B اور 365-A کے تحت درج کیا گیا، ملزمان کو حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 20 اگست 1998 کو مقدمے میں شامل ہر دفعہ کے تحت سزائے موت سنائی، اس کے علاوہ ملزمان کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی بھی سزا کا حکم دیا گیا، ملزمان نے سزا کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیلیں دائر کیں۔

ہائی کورٹ نے 18 اگست 1999 کو اپیل مسترد کردی، اسی طرح سپریم کورٹ نے 19 اپریل 2000 کو اور 15 اگست 2000 کو نظر ثانی شدہ اپیل بھی مسترد کردی، صدر مملکت نے 14 ستمبر 2000 کو رحم کی اپیل بھی مسترد کردی، مجرموں میں سے شبیر بلوچ کو کراچی میں جبکہ صابر بلوچ اور شاہ سوار بلوچ کو حیدرآباد میں 28 مئی کو پھانسی دی جائے گی اور اس طرح 17 برس بعد مجرم اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے