خدارا نجکاری نہیں اصلاحات کی جائیں

اگرنجکاری ہی توانائی کے بحران کا حل اورعوامی مفاد عامہ کی محافظ ہوتی تو کراچی میں کے الیکٹرک اس کی ایک روشن مثال ہوتی۔


خدارا کوئی حکومت کو سمجھائے کہ بجلی کے بحران کا حل نجکاری نہیں بلکہ اصلاحات ہیں۔۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں توانائی کے بحران میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کا نہ تو کوئی حل نظر آرہا ہے اور نہ ہی یہ حل ڈھونڈنے کی کوشش نظر آرہی ہے۔ اِس وقت بھی ملک بھر میں 10 سے 16 گھنٹے کی صبر آزما لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ عوام کی زندگی اجیرن اور صنعتیں تباہ ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے متعدد صنعتیں خطے کے دیگر ممالک میں منتقل ہورہی ہیں جو یقینی طور پر ملک اور اس کی معیشت کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔

یوں تو توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے مختلف آپشنز موجود ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے نزدیک اس بحران کا واحد اور بہترین حل محکمہ بجلی کی نجکاری ہے۔ اُنہوں نے اپنے پچھلے دو ادوار میں بھی اپنی اس پالیسی کو جاری رکھا اور اب اس تیسرے دور حکومت میں بھی اپنی اسی نجکاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، مجال ہے کہ ان کی سوچ میں ذرا بھی تبدیلی آئی ہو۔

حکومت کی جانب سے محکمہ بجلی کی نجکاری کے فیصلے کے بعد سے ہی محکمے کی سی بی اے مزدور یونین آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ ملک گیر سطح پر احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور دھرنے دیئے جا رہے ہیں لیکن حکومتی موقف میں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ یونین کی احتجاجی مہم کا مقصد حکومت کو یہ باور کرانا ہے کہ محکمہ بجلی کی نجکاری توانائی کے بحران کا حل نہیں ہے اور نہ ہی یہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے کیونکہ یہ محکمہ ریاست کا ایک قومی ادارہ ہے لہذا مستقبل میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔

مزدور یونین کا موقف ہے کہ اگر محکمے کو نجی سیٹھوں کی تحویل میں دے دیا گیا تو غریب ملازمین کی حق تلفی ہوگی، ان کی ملازمتوں کا تحفظ خطرے میں پڑجائے گا جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہوگا جبکہ ملک میں پہلے ہی بیروزگاری موجود ہے۔ اُن کے مطابق اِس بحران کا حقیقی حل تو یہ ہے کہ محکمہ بجلی میں نجکاری کے بجائے اصلاحات کا نفاذ کیا جائے۔ اگر یونین کے موقف پر غور کیا جائے تو یہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ محکمہ بجلی عوامی مفاد عامہ کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہے۔ اسے ملک کے مخصوص سیاسی و معاشی حالات کے پیش نظر حکومتی تحویل میں رہنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ اِس کی نجکاری بہت سے گھمبیر مسائل کو جنم دے گی۔



ماضی میں واپڈا کی نجکاری کیلئے اس میں توڑ پھوڑ کا عمل شروع کیا گیا۔ پورے محکمے کو 15 تقسیم کار کمپنیوں میں تقسیم کر دیا گیا جنہیں بعد ازاں مرحلہ وار نجی شعبے کی تحویل میں دینے کا اعلان کیا گیا۔ اِس وقت بھی سی بی اے یونین سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور مزدور رہنماء احتجاجی جلسے و جلوسوں میں چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ خدارا واپڈا جیسے قومی اور منافع بخش ادارے کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں لیکن ایک نہ سنی گئی۔

ذاتی رائے تو یہ ہے کہ دراصل یہ عالمی مالیاتی اداروں کا ایک فرمائشی پروگرام تھا اور ساتھ ہی قومی اداروں کی نجکاری کا ایک تجربہ بھی جس کی سزا آج پوری قوم لوڈشیڈنگ کی شکل میں بھگت رہی ہے۔ ملک میں توانائی کے بحران کی ایک بڑی وجہ محکمے کی ناقص کارکردگی بھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں نے واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کیا، اپنے من پسند سیاسی ورکرز کو ان کمپنیوں میں میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر بھرتی کرایا گیا جس سے ناقص کارگردگی نے جنم لیا۔

اگر نجکاری ہی توانائی کے بحران کا حل اور عوامی مفاد عامہ کی محافظ ہوتی تو کراچی میں کے ای ایس سی اس کی ایک روشن مثال ہوتی۔ کے ای ایس سی جو اب کے الیکٹرک کہلاتی ہے اس کی نجکاری کردی گئی ہے لیکن وہ کراچی کے عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات نہیں دلاسکی اور وہاں کے عوام بھی پورے ملک کی عوام کی طرح ہولناک لوڈشیڈنگ کے آزار مسلسل میں مبتلا ہیں۔ اِس کی دوسری مثال کیپکو ہے لیکن کہیں بھی عوام کو لوڈشیڈنگ سے ریلیف نہیں مل سکا۔ ان تجربات کے بعد اب 15 تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کونسا معجزہ کر دکھائے گی۔



اگر حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے سنجیدہ ہے تو نجکاری کے بجائے محکمے میں اصلاحات لانے کا عمل شروع کرے اور کرپشن کے ناسور کو جڑ سے ختم کرے۔ ساتھ ہی ملک میں نئے ڈیمز بنائے جائیں جن کی ملک کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ پڑوسی ملک ایک ڈیم کے بعد دوسرا ڈیم بنا رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ چند مٹھی بھر مسترد شدہ عناصر کی مخالفت کے دباو میں آکر نئے ڈیمز بنانے سے گریزاں ہیں لہٰذا آج توانائی کا بحران اس بات کا متقاضی ہے کہ کالا باغ ڈیم سمیت دیگر نئے ڈیمز بھی بنائے جائیں۔

توانائی بحران کی ایک اور اہم وجہ بجلی کی چوریبھی ہے جس میں عوام و خواص دونوں شامل ہیں۔ یہ محکمے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہی ہے اس کی فوری روک تھام کی جائے اور بجلی چوروں سے واپڈا واجبات کی وصولی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر صرف بجلی کی چوری روک لی جائے تو بہت حد تک بجلی کے شارٹ فال کو کم کیا جاسکتا ہے۔ بجلی کی پیداوار کیلئے متبادل ذرائع کے مزید نئے منصوبے بناکر ان کا دائرہ بڑھایا جائے جن میں شمسی توانائی اور ونڈ پاور منصوبے شامل ہیں۔



محکمے کی کارکردگی بڑھانے کیلئے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں عصری تقاضوں کے مطابق اضافہ کیا جائے۔ محکمہ بجلی میں مزدوروں کی نمائندہ سی بی اے یونین کے ساتھ مشاورت و اشتراک عمل کا موثر نظام قائم کیا جائے۔ حکومت کو چاہیئے کہ محکمے کی نجکاری کے عمل پر یکطرفہ کارروائی کے بجائے احتجاج پر بیٹھی مزدور یونین اور اس کے بزرگ و تجربہ کار رہنمائوں کا موقف بھی سنے اور باہمی افہام و تفہیم کے بعد پالیسی بنائے کیونکہ بجلی کا محکمہ عوامی مفادِ عامہ اور ریاست کا ایک عظیم ادارہ ہے، ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی نجکاری غیر فطری ثابت ہوگی لہٰذا ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اسے تباہی سے بچایا جائے اوراس کا قومی تحویل میں ہونا ہی اس کی بقاء ہے۔

[poll id="452"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے