سعودیہ میں خودکش حملہ

مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کے حوالے سے سعودی عرب کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے


Zaheer Akhter Bedari May 30, 2015
[email protected]

مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کے حوالے سے سعودی عرب کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے اور سعودی عرب میں ہونے والی اس قسم کی وارداتوں پر مسلمانوں کی تشویش ایک فطری امر ہے۔ یمن میں ہونے والی خون ریزی اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں شدید اضطراب میں مبتلا ہیں اور یمن کے بحران کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عرب اتحاد کی تنظیم کے زیر اہتمام یمن پر بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ ان عرب ملکوں کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر باغیوں کو یمن میں نہ روکا گیا تو ان کا رخ سعودی عرب اوردیگر خلیجی ممالک کی طرف ہو جائے گا۔ اس خطرے کے پیش نظر سعودی عرب نے اب فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ فوجی ایکشن کا بھی آغاز کر دیا ہے ۔

اس مہیب خطرے کے پیش نظرخلیجی عرب حکمرانوں کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے یمن کی جنگ میں شرکت سے انکار پر متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے پاکستان کو کھلی دھمکیاں دیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ داعش اب سعودی عرب میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو پھیلانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے گاؤں قدیح اور گزشتہ روز دمام میں خودکش حملے کو اسی سلسلے کی کڑی سمجھا جا سکتا ہے۔

اس مسئلے کے دو پہلو ہیں یمن کے جنگجوؤں سے ایک خطرہ تو سعودیہ اور دیگر عرب حکمرانوں کو لاحق ہو گا۔ دوسرا ممکنہ خطرہ سعودیہ میں موجود مقامات مقدسہ کو ہو سکتا ہے۔اس معاملے میں کس حد تک صداقت ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جہاں تک ان ملکوں کے حکمرانوں کو خطرے کا تعلق ہے' جمہوری ملکوں کو اس کی فکر اس لیے نہیں کہ ان ملکوں میں صدیوں سے خاندانی حکمرانی کا رواج جاری ہے جسے جدید دنیا مسترد کرتی ہے اور ان مسائل کا اصل سبب بھی اس طرز حکمرانی ہی میں تلاش کرتی ہے۔ جدید دنیا کا فلسفہ یہ ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے اور آمریت کے حوالے سے خاندانی حکمرانی کو سب سے بڑی آمریت سمجھا جاتا ہے اگر کوئی گروہ آمریت کو ختم کرنے کے لیے آگے آتا ہے تو اس کی مخالفت نظریاتی طور پر ممکن نہیں رہتی۔

بدقسمتی سے عرب دنیا مجموعی طور پر ابھی تک چھوٹی بڑی آمریتوں کے چنگل ہی میں پھنسی ہوئی ہے اگر ان ملکوں میں تیل کی دولت نہ ہوتی اور عوام معاشی عسرت سے دوچار ہوتے تو اب تک ان ملکوں میں سیاسی ڈھانچے تبدیل ہو چکے ہوتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار امریکا محض اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی خاطر دنیا کے کئی ملکوں میں جمہوریت دشمن طاقتوں کی حمایت کرتا نظر آتا ہے پاکستان میں فوجی آمر ضیا الحق کی امریکا کی طرف سے حمایت اور اسے روس کے خلاف استعمال کرنا اس حوالے سے ایک بدترین مثال ہے۔

عرب ملکوں کے آمرانہ طرز حکمرانی میں استحکام کا ایک بڑا سبب امریکا کی موقعہ پرست پالیسیاں ہیں، امریکی بدقماش تھنک ٹینک اور حکمران طبقات کا خیال ہے کہ آمرانہ حکومتیں اس کے لیے جمہوری حکومتوں سے زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب طرز حکمرانی میں تبدیلی آنی چاہیے اور اندرونی اور بیرونی فیصلوں کا اختیار شاہی خاندانوں کے بجائے عوام کو ملنا چاہیے لیکن موجودہ زمینی حقائق کا تقاضا ہے کہ عوام اور جمہوری ملک، مذہبی انتہا پسندی دہشت گردی اور خاندانی حکمرانی میں سے ترجیحات کا تعین بڑی احتیاط سے کریں۔

خاندانی حکمرانیاں اور آمریت بلاشبہ جدید طرز سیاست میں ماضی کی بدنما یادگاریں ہیں لیکن مذہبی انتہا پسندی کی خطرناک آندھی جس بے رحمی سے انسانیت اور انسانی تہذیب کو روند رہی ہے اس کے پیش نظر دنیا کی اولین ترجیح اس انتہا پسندی کا خاتمہ ہی ہو سکتی ہے۔

یمن کی تاراجی ہی پہلا اور اکیلا المیہ نہیں بلکہ عراق، شام، پاکستان، مصر، الجزائر سمیت بیشتر افریقی ملکوں میں مختلف ناموں کے ساتھ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے اس کے پیش نظر اب دنیا کے ہر ملک کی اور عوام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بے رحمانہ بے سمت اور بے معنی مذہبی انتہا پسندی کا راستہ روکنے میں موثر کردار ادا کریں' اس پس منظر میں یہ مسئلہ صرف سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں یا ان ملکوں کے طرز حکمرانی کا نہیں رہ جاتا بلکہ یہ مسئلہ کرہ ارض پر انسانوں اور انسانی تہذیب کی بقا کا مسئلہ بن جاتا ہے اور انھیں اس کی سنگینی کا احساس ہونا چاہیے۔

22 مئی کو سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف کے گاؤں قدیح کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکے میں اخباری خبروں کے مطابق 20 نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے زخمیوں میں کئی کی حالت تشویشناک ہے۔گزشتہ روز سعودی عرب کے شہر دمام میں اس قسم کا حملہ ہوا ہے۔ اگرچہ یہ بزدلانہ حملے قابل افسوس اور قابل مذمت ہے لیکن یہ وحشیانہ حملہ نہ غیر متوقع ہے نہ حیرت انگیز۔ پوری مسلم دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔عراق 'لیبیا 'صومالیہ اور افغانستان میں آئے روز بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہتے ہیں۔

دہشت گردی کی ان وارداتوں میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ دہشت گردی کا شکار مسلم ملکوںکا انتظامی ڈھانچہ اور معیشت زمین بوس ہو چکی ہے اور لوگوں کا معیار زندگی انتہائی پستی میں چلا گیا ہے۔ دوسرے ملکوں کو چھوڑیے پاکستان بھی دہشت گردی کے ناسور کا شکار ہے۔ ابھی حال ہی میں کراچی کے ایک مقام صفورا چورنگی پر بس میں گھس کر دہشت گردوں نے جس سفاکی سے 45 مردوں خواتین اور بچوں کو شہید کیا یہ پرانا نہیں نیا المیہ ہے۔

سانحہ صفورا نے پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو اس لیے زیادہ دکھی کر دیا کہ جس کمیونٹی کے 45 افراد کو بیدردی سے شہید کر دیا گیا وہ کمیونٹی انتہائی امن پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والی کمیونٹی مانی جاتی ہے جس کا سیاست اور سیاسی جھگڑوں سے کوئی تعلق نہیں۔ حیرت اور تعجب اس بات پر ہے کہ سانحہ صفورا کے حوالے سے گرفتار ہونے والے دہشت گردوں میں سوائے ایک کے باقی تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ دہشت گرد ہیں۔یہ پہلو پورے معاشرے کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔

دنیا میں ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں جو 57 مسلم ملکوں میں آباد ہیں۔ ان 57 مسلم ملکوں میں آباد مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور وہ اپنے دینی فرائض صدیوں سے بلاخوف و خطر انجام دے رہے ہیں اس پس منظر میں نفاذ اسلام کے نام پر مسلم ملکوں میں جو سفاکانہ دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے اور خاص طور پر مسجدوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس قدر حیرت انگیز اور دل دہلا دینے والا سلسلہ ہے کہ پوری مسلم دنیا اس وحشیانہ کلچر سے خوفزدہ ہے اور حیران ہو کر سوچ رہی ہے کہ مسجدوں میں مسلمانوں کے قتل اور بے گناہ مسلمانوں کو سیکڑوں کی تعداد میں بے دردی سے ذبح کرنے کا اسلام سے کیا تعلق بنتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں