کیا سعودی عرب صرف ایک ملک ہے

امید ہے آپ جان گئے ہوں کہ جس سے فیض یاب و لذت یاب ہونے کے لیے کانوں اور آنکھوں دونوں کی ضرورت ہوتی ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq June 02, 2015
[email protected]

ہم چونکہ کچھ زیادہ دانا بینا اور ہوشیار سمجھ دار نہیں ہیں بلکہ کم یا زیادہ کیا تھوڑے بہت بھی نہیں ہیں اور یہ کوئی خاص بات بھی نہیں ہے، اکثر گھروں کے کچھ افراد ہوشیار سمجھ دار اور دانا دانشور ہوتے ہیں لیکن کچھ ہماری طرح بھولے بھالے اور اللہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو گھروں کے بڑے بڑے معاملات میں دخل درمعقولات نہیں کرنے دیا جاتا ہے۔

ان کا کام صرف بڑوں کی بات ماننا سودا سلف لانا، ہٹی بھٹنا کرنا اور ادھر ادھر کے رسل و رسائل تک محدود رکھا جاتا ہے، صحافت کو بھی ایک ایسا ہی گھر سمجھ لیجیے جس میں دانا بینا پڑھے لکھے اور سب کچھ شناس کے ساتھ ساتھ ہمارے جیسے ایویں کالم نگار بھی پائے جاتے ہیں، اسی لیے ہم اکثر خود کو چھوٹے چھوٹے معاملات تک محدود رکھتے ہیں جیسے سبزی ترکاری کے بھاؤ کا پتہ ہونا، گاؤں محلے میں شادی غمی یا لڑائی تکرار کی خبر رکھنا، چھوٹی موٹی لڑائیوں کی خبریں سنانا اور تبصرے کرنا یا رشتوں ناتوں (جائز و ناجائز) پر ادھر ادھر کی ہانکنا، اس لیے جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے ہم کونے میں بیٹھ کر بڑوں کی طرف کان لگا دیتے ہیں اور کچھ نہ کچھ باخبری حاصل کر لیتے ہیں جسے بعد میں باہر جا کر اپنے حلقہ ہائے اثر میں سنا کر داد حاصل کرتے ہیں، چنانچہ پچھلے کچھ عرصہ سے یہ جو سعودی عرب کے اردگرد کھٹ پٹ ہو رہی ہے اس کے بارے میں انتظار کرتے رہے کہ کچھ کام کی بات پلے پڑ جائے گی نہ صرف کالم نگاروں کے کالم، تجزیہ نگاروں کے تجزیئے اور ماہرین کے ماہر پڑھتے رہے بلکہ وہ جو دیکھنے کی چیز ہے اور بار بار دیکھی جاتی ہے جو بیک وقت ٹو ان ون یعنی

موج خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ
بہ جنت نگاہ وہ فرد و سی گوش ہے

امید ہے آپ جان گئے ہوں کہ جس سے فیض یاب و لذت یاب ہونے کے لیے کانوں اور آنکھوں دونوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں دنیا بلکہ عالم کے چنے ہوئے ''دانے'' کھل کر دانائیاں بکھیرتے ہیں، ایسی دانائیاں کہ وہ کہے اور سنا کرے کوئی، جس کے بارے میں مرشد نے کہا ہے کہ

یاشب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہ بساط
دامان باغبان وکف گل فروش ہے

مطلب یہ کہ ہر جگہ دیکھا، ہر کہیں جھانکا ، ادھر ادھر کی بے فضول باتیں تو بہت ہوئیں لیکن کام کی بات کہیں بھی سننے میں نہیں آئی نہ ہی دیکھنے کو ملی، ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں اب ہمیں ہی کچھ نہ کچھ تو بولنا ہی ہو گا کیوں کہ یہ معاملہ جتنا سیدھا نظر آتا ہے یا جتنا سادہ دکھایا جاتا ہے، یہ اس سے کہیں زیادہ سیریس اور سنجیدہ ہے بظاہر تو لگتا ہے جیسے سعودی عرب ایک ملک ہے جس کے بارے میں ہمارے ہاں اکثر اختلاف رائے پایا جاتا ہے بلکہ زیادہ لوگ دبی زبان ہی سے سہی اس کے خلاف بولتے ہوئے پاتے جاتے ہیں، اس انداز میں کہ

منہ سے ہم آپ برا تو نہیں کہتے کہ فراق
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں ہے

لیکن یہاں بات صرف ''آدمی'' تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ جب سے مساجد میں دھماکے ہونے لگے ہیں، بات درحقیقت سوچنے والی ہو گئی بلکہ بہت زیادہ اور بہت دور تک سوچنے والی ہو گئی ہے، مساجد میں دھماکے اپنے یہاںبھی ہوتے رہتے ہیں کیونکہ کچھ لوگ خدا سے بھی زیادہ آگے نکل کر بندوں کو سیدھا کرنا چاہتے ہیں، لیکن سعودی عرب میں مساجد جنھیں خدا کا گھر کہا جاتا ہے میں اس قسم کی چیزوں کی ابتداء ہونا نہایت ہی گہری سوچنے والی بات ہے کیوں کہ وہاں پر تو خدا کا وہ گھر بھی ہے ۔

جس کے بارے میں ایسا کچھ سوچ کر بھی جھرجھری آجاتی ہے اور یہ ضمانت کون دے سکتا ہے کہ خدا کے چھوٹے گھر میں خیر ہے لیکن بڑے گھر میں ایسا نہیں ہو گا کیوں کہ یہ دنیا نہایت ہی بھیانک اور تلخ ''ممکنات'' کی دنیا ہے، ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور دنیا میں ابھی ایسے ہزاروں کام ہیں جو ''پہلی بار'' ہو سکتے ہیں، آپ سے کیا پردہ اپنی تمام تر رجائیت اور خوش فہمیوں کے باوجود ہمارے پورے جسم بلکہ روح تک پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ خدا نخواستہ خدا نخواستہ ۔۔۔۔ ہونے کو کیا نہیں ہو سکتا کسی نے کبھی سوچا تھا کہ افغانستان پر امریکا حکومت کرے گا یا عراق میں تمام مقدسات اس طرح گر جائیں گی یا اتنا سا اسرائیل اتنے سارے مسلمانوں سے کان پکڑوائے گا اور ناک رگڑوائے گا، ہمارے خیال میں تو تمام تر سیاستوں مصلحتوں، منافقتوں اور مفادات کی ایک حد ہونی چاہیے، لالچ بزدلی اور سو کال ''عقل مندی'' کی بھی کوئی انتہا ہونی چاہیے اور انسان کی ایک دن وہ مقام بھی آجاتا ہے جہاں سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جان تک پس پشت چلی جاتی ہے اور اسے ایک قطعی فیصلہ کرنا ہوتا ہے، نفع و نقصان پر دھیان دیے بغیر ایسا نہ ہو جائے یا ویسا نہ ہو جائے ۔۔۔ سوچے بغیر، ہماری پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ

دولت زار شہ د سرنہ
او سرزار شہ د عزت نہ

یعنی دولت قربان ہو جائے سر پر، اور سر قربان ہو جائے عزت پر، ہمیں الفاظ نہیں مل رہے کیوں کہ الفاظ کے لیے پہلے تصور کرنا لازم ہوتا ہے لیکن یہ تصور ہی اتنا سوہان روح اور جان لیوا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کیا آپ کسی دن کسی ایسی خبر سننے کے لیے تیار ہیں جس کے بعد کسی بھی خبر کی خبر نہیں رہ جاتی کیوں کہ اگر کوئی خبر کے بعد بھی زندہ رہے تو اس سے بڑا بے شرم اور بے درد کون ہو گا حالانکہ ہوتے ہیں دنیا میں ایسے بھی

ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا

اس سے زیادہ ہم کہہ بھی نہیں سکتے اور تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن اس سے پیشتر تو سوچ سکتے ہیں کر سکتے ہیں یا کم از کم کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں کہ بہت دیر ہو جائے نہ تو گزرا ہوا پانی واپس آتا ہے اور نہ رونے سے کبھی مردہ زندہ ہوتے ہیں

خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر
زاں پیش ترکہ بانگ برآئد فلاں غاند

اب کیا کرنا ہے، کیا ہونا چاہیے، یہ ہمارے جیسے عام لوگوں کا کام نہیں بلکہ ان کا ہے جو بڑے بڑے دعوے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جو خود کو خود ہی ذمے دار بنا کر ذمے داریاں اٹھائے ہوئے ہیں، ہمیں نہ سعودی حکومت سے کوئی سروکار ہے نہ کسی طرز حکومت سے لینا دینا ہے نہ سیاسی مفادات اور مفاداتی سیاست جانتے ہیں اگر جانتے ہیں تو صرف اتنا کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ہے۔

اس مسلم دنیا اور پھر خاص طور پر اسلام کے سب سے بڑے مدعی پاکستان اور اس کے بڑے بڑے باتدبیروں کو کیا کرنا چاہیے یہ ہمیں نہیں معلوم بھلے ہی سیاسی سطح پر سعودی عرب کی مدد کریں یا نہ کریں لیکن وہاں ہمارے ''جو دل'' ہیں ان کو بچانے کا اپائے تو کرنا ضروری ہے اور یہ بالکل بکواس ہے کہ ایسا ہو گا یا نہیں ہو گا اگر نہیں ہوا تو شکر ہے لیکن اگر ہوا تو ۔۔۔۔ کیونکہ نہ ہونے کی ضمانت تو کسی کے پاس بھی نہیں ہے اگر محبوب مر جائے تو پھر کب کیوں کب کیسے سے کیا فائدہ ۔۔۔ کوئی ہمیں بالکل بھی دانا و بینا نہ سمجھے لیکن بات کو تو سمجھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے