ہم اور ہمارے حکمران

ہمارے حکمران بذات خود مانے ہوئے کاروباری لوگ ہیں اور ان مسئلوں کو ہم آپ سے زیادہ سمجھتے ہیں


Abdul Qadir Hassan August 04, 2015
[email protected]

PESHAWAR: انیس بیس کروڑ مسلمانوں کی آبادی والے ملک کے اعدادوشمار شائد کچھ مختلف ہوں لیکن پاکستان بہر حال ایک اکثریتی مسلمان آبادی والا ملک ہے اور اس کی اسلامیت کا چرچا دنیا بھر میں ہے۔ یہ ملک جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صرف اور صرف اسلام کے نام پر بنا اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اسے بنایا گیا قائداعظم نے قاہرہ میں عربوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان نہ بنا تو برصغیر کے مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ہوں گی۔ قائد کے اس اندیشے کو ہم اب تک زندہ دیکھ رہے ہیں۔

1947 میں قیام پاکستان کے وقت اس ملک کی اسلامیت کا اس قدر ذکر ہوتا تھا کہ ایک بار مصر کے بادشاہ شاہ فاروق نے طنزاً کہا کہ اسلام تو 1947ء میں آیا ہے۔ یہ بات شاید کوئی طنز نہیں تھی کیونکہ اس سے قبل مسلمان کہلانے والے کسی ملک نے اپنے وجود کو اسلام سے اس قدر وابستہ نہیں کیا تھا۔ یہ پرانی بات جو میں اکثر کسی نہ کسی بہانے یاد کرتا اور دلاتا رہتا ہوں مجھے پاکستان کی سرکاری پالیسیوں میں دکھائی نہیں دیتی بعض اوقات یوں لگتا ہے جیسے کچھ بیرونی لوگ پاکستان میں اپنے مخصوص مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بات مجھے ملک بھر میں نافذ ودہولڈنگ ٹیکس سے یاد آئی ہے۔ جب ملک بھر کا کاروباری طبقہ اس ٹیکس کو اس طرح قبول نہیں کرتا تو پھر اسے قابل قبول بنا کر کیوں نافذ نہیں کیا جاتا۔ اس وقت نفع نقصان تو بعد کی بات ہے یہ ٹیکس کسی کاروباری کی ذرا سی حرکت پر بھی اچھا خاصا لاگو ہوجاتا ہے۔ آپ ایک لاکھ روپیہ لیں اور اس میں کچھ لین دین کریں تو وہ چند سودوں کے بعد اس قدر لہولہان ہو چکا ہو گا کہ پہچانا نہیں جائے گا۔ جیسے کسی جیب کترے نے آپ کی جیب کاٹ لی ہے۔

ہمارے حکمران بذات خود مانے ہوئے کاروباری لوگ ہیں اور ان مسئلوں کو ہم آپ سے زیادہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی ہڑتال کو برداشت کر لیتے ہیں مگر کسی نا انصافی کا علاج نہیں کرتے۔ یہ ملک تو مسلمانوں کا ایک مشترکہ ملک تھا۔ کسی مسلمان نما ماہر کا ملک نہیں کہ وہ اس کی آبادی کی پروا نہ کرے اور من مانی کرتا رہے۔

اور ان دنوں سیلاب کی جو قاتل لہر ملک پر چھائی ہوئی ہے اس میں تو ہمیں بہت ہی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ سیلاب کا جو نتیجہ نکل رہا ہے اس کا ماتم گو الگ سے کرنا ہو گا کیونکہ یہ محض سیلاب نہیں ملک کی تباہی کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔ جسے ہم کسی حال میں بھی برداشت نہیں کر سکتے۔

ہمارے حکمرانوں کو بھی مسلمانی کا دعویٰ ہے اور درست ہے وہ نماز روزہ والے مسلمان ہیں لیکن افسوس کہ عملی زندگی میں ان کی تربیت اسلامی روایات اور تعلیمات کے مطابق نہیں ہوئی۔

مسلمان حکمرانوں کے حوالے تو ان حکمرانوں کے لیے کافی پریشان کن ہوتے ہیں حالانکہ اس دور کے مسلمانوں کی توقع یہ تھی کہ پاکستان میں ہمیں ایک اسلامی حکمرانی کی جھلک ملے گی اور ہم دنیا بھر کو بتا سکیں گے کہ مسلمان حکومت کیا ہوتی ہے اور مسلمان حکمران کا کردار کیا ہوتا ہے افسوس کہ ہماری یہ حسرت بھی ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے پوری نہ ہونے دی۔ قائداعظم کے بعد معافی چاہتا ہوں چور اچکے ہمارے حکمران بن گئے۔

انھوں نے یہ ملک نہیں چلایا اسے لوٹا ہے اور اسے اب تک لوٹا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کا انداز حکمرانی تو جو ہے ہمارے سامنے ہے ان کا رہنے سہنے کا انداز ان کے ایک دوست شاہی خاندان کے برابر ہے۔ ہم پاکستانیوں کی اتنی قیمت نہیں جتنی ہمارے حکمرانوں کی نئی نویلی گاڑیوں اور تازہ دم حفاظتی نسلی کتوں کی ہے۔

اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا خاصا جاندار ہے جو ہمیں تمام رازوں سے آگاہ کرتا رہتا ہے لیکن ہماری سیاست چونکہ کرپشن کے سیلاب میں ہے اس لیے کوئی سیاستدان بولتا نہیں۔ ہمارے میڈیا سے آدھا سرگرم بھی ہمارا کوئی سیاست دان ہوتا تو پاکستانی عوام کو ناانصافیوں سے بچا لیتا یا عوام میں یہ شعور پیدا کر دیتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

میں نے اگلے دن ایک خبر پڑھی کہ میری ممدوح جماعت کی پوری قیادت الف سے ی تک امیر جماعت کی قیادت میں ایک سرکاری مشیر سے ملنے جا رہی ہے۔ ان سرکاری مشیروں کو کون نہیں جانتا کہ میاں صاحب نے اپنے ملازمین کو مشیر بنا دیا ہے اب جب خبر ملتی ہے کہ قومی سطح کی ایک جماعت اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ کسی ضعیف العمر مشیر سے ملنے جا رہی ہے تو جماعت کے ساتھی اپنے سر کا نہ جانے کیا حلیہ بنا لیتے ہوں گے۔ یہ میاں صاحب کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ سیاست میں بھی کاروبار کی طرح کامیاب جا رہے ہیں۔

بات یہ ہو رہی تھی کہ ہم جو قومی پالیسیاں بناتے ہیں ان میں عامۃ المسلمین کا خیال کیوں نہیں رکھتے اور یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ یہ پالیسیاں قابل برداشت بھی ہوں گی یا نہیں۔ جن لوگوں کی آنکھوں پر دنیا جہان کی کرنسیوں کی چربی چڑھی ہوتی ہے مہربانی کر کے وہ کوئی تھوڑا سا وقت ان عوام کے لیے بھی رکھ لیا کریں جن کی وجہ سے وہ سب کچھ ہیں۔

وہ زمانہ تو اب خواب و خیال ہے کہ جب کسی اسلامی ملک میں خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوا کرتا تھا لیکن ایسا زمانہ تو آ سکتا ہے کہ جب قوم کو عزت کی روٹی مل سکے جو اس کا اسلامی حق ہے۔

گزشتہ رمضان کے مبارک دنوں میں ہمارے بڑوں نے مسجد نبوی میں ایک شادی کی ہے۔ ایک بات یاد آ گئی ہے کہ اسی شہر مدینہ میں ایک بڑھیا رہتی تھی جس کا کوئی نہ تھا۔ حضرت عمرؓ کو پتہ چلا تو صبح سویرے روٹی پکانے کا سامان لے کر بڑھیا کی خدمت میں حاضر ہو گئے لیکن پتہ چلا کہ کوئی اور صاحب ان سے پہلے یہ خدمت کر چکے ہیں اور جب معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے تو حضرت عمرؓ پھٹ پڑے کہ ابوبکر کچھ ہمارا حصہ بھی رہنے دو۔ کیا ہمارے آج کے حکمران یہ سب نہیں کر سکتے بلکہ اسلام کا نام لینے والے پاکستان کے حکمران کا تو پہلا فرض خدمت خلق ہے ایک بچہ رو رہا تھا حضرت عمرؓ نے دروازے پر دستک دے کر پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے۔

ماں نے جواب دیا کہ عمر نے دودھ پیتے بچوں کا سرکاری وظیفہ بند کر دیا ہے اور میں اس کا دودھ چھڑا رہی ہوں جس کی وجہ سے یہ رو رہا ہے۔ دنیا کا سب سے طاقت ور حکمران یہ سن کر اسی بچے کی طرح رونے لگا کہ عمر تم نے کتنے بچوں کو رلایا ہے اور وظیفہ فوراً سے بحال کر دیا۔ ہمارے ان حکمرانوں کی عوامی خدمت کا کوئی شمار نہیں یہ سب یاد کر کے سوچتے ہیں کہ کیا ہم ایک مسلمان ملک ہیں۔

مقبول خبریں