خوش آمدید جناب مانی شنکر آئر
میں بھارت کے ایک سابق وفاقی وزیر جناب مانی شنکر آئر کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں۔
KARACHI:
میں بھارت کے ایک سابق وفاقی وزیر جناب مانی شنکر آئر کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ پاکستان میں وہ ایک عرصہ تک سفارتی ذمے داریاں سنبھالتے رہے ہیں اور یہ ملک ان کے لیے ہر گز اجنبی نہیں ہے لیکن میں جب ایک بار دلی گیا تو مجھے لگا کہ میں ایک بہت ہی زیادہ اجنبی ملک میں آ گیا ہوں۔
ایک معمولی سی بات پر بھارت بھر میں جو صحافتی ہنگامہ برپا ہوا وہ نہایت ہی حیرت انگیز تھا اور ناقابل یقین۔ بھارت جانے سے پہلے میں نے یونہی سا ایک کالم لکھ دیا جس میں میرے بچپن کی کچھ یادیں تھیں جو ہمارے گاؤں میں ہندو دکانداروں سے وابستہ تھیں۔ میں نے لکھا کہ میں بھارت شاپنگ کے لیے نہیں جا رہا کیونکہ میں نے جتنی شاپنگ کرنی تھی وہ اپنے گاؤں میں اپنے بچپن میں وہاں کے ہندو دکانداروں سے کر لی ہے اور اب مجھے مزید کسی شاپنگ کا شوق نہیں ہے۔
میرے خیال میں تب بھی اور اب بھی وہ ایک عام سرسری سی بات تھی۔ دلی میں ہمارے ایک شناسا راجندر سیرین تھے جنہوں نے ایک ادارہ بنا رکھا تھا جو بھارت کے بارے میں غیر ملکوں میں شایع ہونے والی خاص تحریروں کا ترجمہ کر کے حکومت کو بھجوا دیتا تھا خصوصاً پاکستانی تحریروں کو۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ بھارت کے ان اخباروں میں جن کو میں وہاں پڑھا کرتا تھا میرے خلاف ایک ہی مضمون کا ایک ادارتی نوٹ شایع ہوا۔ پھر میں نے چند دوسرے اخبارات بھی دیکھے جن میں یہی نوٹ ہو بہو چھپا تھا۔
اس میں میرے کالم پر تنقید کی گئی اور اسے اس قدر اہمیت دی گئی کہ ملک بھر کے اخبارات نے اس کالم پر سرکاری ردعمل کو لفظ بہ لفظ چھاپ دیا کہ یہ کالم بھارت کے خلاف حقارت پر مبنی ایک تحریر ہے ان دنوں صدر ضیاء بھی دلی میں تھے میں نے سیکریٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن سے کہا کہ یہ کیا ہے وہ بھی حیران تھے اور شاید صدر صاحب بھی۔ مجھ سے کہا گیا کہ صدر صاحب تو واپس جا رہے ہیں البتہ میں اگر بھارت میں اپنا قیام طویل کرنا چاہتا ہوں تو کر سکتا ہوں۔
میں ایک دوسرے ہوٹل میں منتقل ہو گیا وہ بھی کناٹ پیلس میں تھا لیکن کچھ سستا۔ بھاری بھر کم جسم والے امرتسری راجندر سیرین بھی آ گئے اور اپنی حکومت کے اس ردعمل پر بظاہر تعجب کا اظہار کیا اور مجھ سے کہا کہ کل صبح میں متعلقہ افسر سے ملوں گا ملاقات طے کر دی گئی ہے چنانچہ دوسرے دن وزارت اطلاعات کے غیر ملکی شعبے میں پہنچے تو وہاں مانی شنکر صاحب بیٹھے تھے۔ انھوں نے اپنا تعارف کرایا اور لاہور کی خیر و عافیت معلوم کی جہاں وہ ایک عرصہ کام کرتے رہے تھے۔
پھر جب میں نے کالم پر ان کے غیر معمولی ردعمل پر بات کی تو انھوں نے 'چھوڑیے اسے' کے انداز میں بات بدل دی اور پھر رخصتی کے وقت یہ پیش کش کی کہ میں بھارت کے کسی بھی شہر میں سرکاری مہمان کے طور پر قیام کر سکتا ہوں اور امید ہے کہ میں یہ پیش کش قبول کر لوں گا لیکن اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایک تو میری جیب بھی خالی نہیں تھی دوسرے اس اخباری استقبال کے بعد کسی مزید سیر و سیاحت کی گنجائش کہاں رہی تھی۔
پھر یہ بات میرے ذہن میں تلملا رہی تھی کہ یہ بڑا ملک رقبے اور آبادی میں پاکستان سے بہت بڑا ملک اندر سے کس قدر چھوٹا ہے کہ ایک کالم نگار کے چند بے ضرر قسم کے واقعات کے ذکر پر کس قدر برہم ہو گیا ہے ہمارے گاؤں میں دکانیں صرف ہندوؤں کی تھیں اور ہم سب سودا سلف ان سے ہی لیتے تھے۔ اگر بھارت کا یہی ذہن ہے اور اس کی اتنی ہی برداشت ہے تو پھر پاکستانیوں کے لیے یہ خوشی کی بات ہے۔ مہان بھارت کو چند الفاظ ہی اس قدر پریشان کر سکتے ہیں کہ اس بڑے وسیع و عریض ملک کا پورا پریس کانپ اٹھتا ہے اور اس پر غصے کی کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور وہ کوئی بھی حرکت کر سکتا ہے۔ اس کی جگہ اگر پاکستان ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ ایسے کالم کا نوٹس تک نہ لیا جاتا۔
یہ واقعہ میں نے جناب مانی شنکر آئر کی یاد میں دہرا دیا ہے ورنہ یہ قابل ذکر نہ تھا۔ ان دنوں ہمارے یہ معزز بھارتی ہمارے سابق وزیر خارجہ کی دعوت پر پاکستان میں تھے۔ یہ دونوں برطانیہ کے ایک تعلیمی ادارے میں ہم جماعت رہے تھے اور ان کا گہرا تعلق اس تقریب سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ جس کا مہمان خصوصی بھارتی دانش ور کو بنایا گیا۔ خورشید صاحب کی کتاب جس میں بھارت پاک تعلقات کا بہت ذکر ہے اس کے لیے بھارت کے اس دانش ور سفارت کار کی ضرورت تھی جو ملازمت چھوڑ کر سیاست میں آ گئے اور بھارت میں وفاقی وزیر بن گئے۔
ہمارے یہ مہمان ایک کھلے دل کے بھارتی ہیں جو حالات کو صحیح پس منظر میں دیکھتے ہیں اور علاقائی تعصب سے محفوظ ہیں۔ میاں صاحب نے ایسے شخص کو اپنی کتاب کی مہورت کا مہمان خصوصی بنا کر بہت اچھا کیا اور شنکر صاحب بھی ان کی دعوت پر بھارت سے پاکستان آ گئے۔ یہاں کی تقریب میں انھوں نے پیار و محبت کی باتیں کیں جو آپ خبروں کی صورت میں پڑھ چکے ہوں گے۔
پاکستان اور ہندوستان کا تعلق مشہور امریکی کارٹون ٹام اینڈ جیری' والا ہے ٹام اور جیری ہر وقت لڑتے رہتے ہیں مگر ایک دوسرے سے جدا بھی نہیں رہ سکتے۔
کچھ ایسا ہی حال بھارت اور پاکستان کا ہے اور جب ان دو ملکوں کے سچے دانشور جمع ہوتے ہیں تو اختلافات کے باوجود دوستی کا دم بھی بھرتے ہیں مثلاً شنکر صاحب نے کہا کہ بھارت کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ انھوں نے یہ بالکل درست بات کہی ہے لیکن ان کے احترام میں اس وقت اس موضوع پر مزید بات مناسب نہیں ہو گی۔ بہر کیف خوش آمدید جناب آئر صاحب''۔