نُورے مُصلی کے آنسو

ہماری پوری زندگی پر بھی صادق آ سکتے ہیں بلکہ آتے ہیں ہم نے پسند نا پسند کے من پسند معیار بنا رکھے ہیں


Abdul Qadir Hassan September 15, 2015
[email protected]

KARACHI: لڑکیوں کو کالا دوپٹہ کالا لباس کالا نقاب کالے جوتے کالی جرابیں کالی پونی کالی کار کالی چوڑیاں پسند ہوتی ہیں لیکن کالا لڑکا پسند کیوں نہیں ہوتا۔ آخر کیوں؟ نورا مصلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے رو پڑا۔ یہ چند الفاظ جو ایک لطیفہ بنا کر بھیجے گئے ہیں، ہماری پوری زندگی پر بھی صادق آ سکتے ہیں بلکہ آتے ہیں ہم نے پسند نا پسند کے من پسند معیار بنا رکھے ہیں جب کہ جمہوریت میں کالے کا بھی ایک ووٹ ہوتا ہے اور گورے کا بھی ،گورے کے دو ووٹ نہیں ہوتے اور کالے کا آدھا نہیں ہوتا۔

اسی طرح آئین میں جہاں کہیں شہریوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کے رنگ کا ذکر نہیں ہے اور اگر نکاح کی بات کریں جس پر نورا مصلی رو پڑتا ہے تو نکاح کے لیے رنگ کی کوئی شرط نہیں ہے اور اب تو میک اپ سے ایسے ایسے کمال دکھائے جاتے ہیں کہ دلہا یا دلہن کو اپنے ساتھی کا اصل رنگ دکھائی بھی نہیں دیتا اور جو دکھائی دیتا ہے وہ اصل نہیں ہوتا۔ اصل رنگ شب عروسی کی صبح کو سامنے آتا ہے جب ہاتھ منہ دھویا جاتا ہے اور نورے مصلی پر اصل ظاہر ہوتا ہے جو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے نورے مصلی کو صرف صنف نازک کے بارے میں ہی خطرہ لاحق نہیں ہوتا اسے اپنے لیڈروں کے بارے میں بھی کئی خدشات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ لیڈروں میں بھی ہر رنگ کے نمونے پائے جاتے ہیں۔

کالے گورے چٹے اور گندمی وغیرہ بعض لیڈر اپنے رنگ کو پسند نہیں کرتے چنانچہ میں نے کئی بار دیکھا کہ اگر کسی خبر کے سلسلے میں صبح صبح کسی لیڈر کے گھر جانا پڑتا تو حجام اپنے تمام اسلحے کے ساتھ اس کے سر پر سوار ہوتا اور قینچی استرے کے علاوہ کچھ اور اشیاء بھی اس کے پاس موجود ہوتیں۔ یہ میک اپ کا سامان ہوا کرتا جس کو استعمال کرنے کا ہنر حجام سیکھ کر آتا تھا اور اپنے لیڈر کو قبول صورت بنا کر عوام کی خدمت میں پیش کرتا تھا اور عوام آسانی کے ساتھ دھوکا کھا جاتے۔ ایسے عوام اب صرف فارسی کے شعروں میں ہی رہ گئے ہیں پاکستان کے جلسے جلوسوں میں نہیں ملتے۔ فارسی شاعر اپنے محبوب کی دغا بازی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت را می شنا سم

کہ تم جس رنگ کا لباس چاہو پہن لو۔ میں تمہارے انداز قد کو خوب جانتا پہچانتا ہوں تم مجھ سے چھپ نہیں سکتے۔ افسوس کہ ہمارے پاکستانی اتنی تیز نظر نہیں رکھتے کہ لیڈر کو اس کے ہر حال میں پہچان سکیں لیکن لیڈر کی قدو قامت جب لباس کی رنگینیوں سے باہر نکلتی ہیں تو پھر وہ اسے ضرور پہچان لیتے ہیں مگر افسوس کہ یہ سب بہت تاخیر سے ہوتا ہے لیڈر بہت کچھ لوٹ چکا ہوتا ہے اور عوام بہت کچھ لٹا چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد عوام کے مطالبے اور مخالفوں کے مقدمے باقی رہ جاتے ہیں لیکن لیڈر ملک بھر میں اپنے مخالفوں کو للکار رہا ہوتا ہے۔

ہمارے ایک چور اور لٹیرے وزیراعظم جس نے ایک عالمی سطح کی چوری بھی کی تھی جو بصد رسوائی لوٹانی بھی پڑ گئی اسے میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ وہ دونوں ہاتھ لہرا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ لوگ اب بھی مجھے وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے بے شرم لیڈر بھی ہمارے ہاں زندہ سلامت ہیں اور مریدوں سے نذرانے وصول کر رہے ہیں۔ اب یہ وزیراعظم تو خود ہی بے نقاب ہو کر بظاہر زندہ سلامت موجود ہے لیکن عوام کچھ نہیں کر سکتے۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ایسے وزیراعظم صاحب ایک نہیں دو ہیں نورا مصلی کس کس کا حساب کرے اور اپنے آنسو پونچھے۔

نورے مصلی نے ایسی دانشمندانہ اور راز کی بات کہہ دی ہے کہ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے بلکہ سچ پوچھیں تو مجھے تو نورا ابن خلدون کا ساتھی اور ہم سبق لگتا ہے جس نے ہمارے جیسے ملکوں کی سچی تصویر بنا کر ہماری کسی اسمبلی کے سامنے لٹکا دی ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ نورے نے سچ نہیں کہا کہ اور تو سب کچھ پسند ہے مگر بات نورے پر آ کر اٹک جاتی ہے۔

یہ نکتہ کوئی بڑا ہی تاریخ دان اور عمرانیات کا ماہر ہی بیان کر سکتا ہے یہ بات سن کر نورے پر کسی عالم کا گمان گزرتا ہے جس نے اپنا علم زندگی کے نشیب و فراز سے حاصل کیا ہے اور اب وہ اسے نہایت ہی دلچسپ انداز میں عوام میں بانٹ رہا ہے اور ان پر ان کے لیڈروں کی سیاست کے نئے پرت کھول رہا ہے۔ آپ خود غور کیجیے کہ سب کچھ پسند لیکن ایک نورا نا پسند جب کہ وہ بھی دوسری پسند کی اشیاء کی طرح کالا ہی ہے اور کیا ہے ہمارے معاشرے کا یہی انداز اور غلط فیصلہ ہماری زندگی کا فیصلہ ہے جو ایسے فیصلوں سے مشکل ترین بن گئی ہے۔

مقبول خبریں