تھانیدار نے بھی قربانی دی
گستاخی بلکہ بدتمیزی معاف کہ میں پاکستانیوں کی تازہ ترین پسند کے گوشت کا ذکر نہیں کر رہا
گستاخی بلکہ بدتمیزی معاف کہ میں پاکستانیوں کی تازہ ترین پسند کے گوشت کا ذکر نہیں کر رہا اور اس کی جگہ حلال اور بابرکت گوشت کا ذکر کر رہا ہوں اور کھا بھی یہی رہا ہوں۔گدھے کتے اور سور، یہ سب جہاں بھی ہیں آزاد پھر رہے ہیں اور فی الحال پاکستانیوں کی نظرہوس سے بچے ہوئے ہیں لیکن قربانی کی عید گزرتے ہی ان سب کی شامت آ جائے گی۔
ان کا گوشت اور کھال تک برآمد ہو گی۔ پتہ نہیں ہماری قوم کو کیا مار پڑی ہے کہ دو اڑھائی سال سے اس نے حلال وحرام کی تمیز بھی ترک کر دی ہے بلکہ اس حلال وحرام کو ایک ذریعہ روزگار بنا لیا ہے۔ دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور حرام وحلال کی تمیز کرتے ہیں بلکہ یہ تمیز ہمارے خمیر میں ہے لیکن پاکستان کیا پورے برصغیر کی تاریخ میں ایسا وقت پہلی بار آیا ہے اور عام مسلمان حیرت زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔
بہرکیف یہ غیرمعمولی ناگوار باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی، میں اس بار ایک عرصہ بعد عید پر لاہور میں ہوں اور عیدقربان کو بھرپور انداز میں مناتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ مسلمان ایک سستے بکرے سے لے کر بلند وبالا اونٹ تک کی گردن پر چھری پھیر رہے ہیں اور ثواب لوٹ رہے ہیں۔ ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ گیٹ کے باہر ہجوم جمع ہو گیا، گوشت کی تلاش میں۔ غلطی یہ ہو گئی کہ بکروں کو گیراج کی چھت پر لگی ہوئی کنڈیوں میں لٹکا دیا گیا جو دور سے دکھائی دے رہا تھا۔
اگرچہ بہت جلدی میں کام کرنے والے قصابوں نے ان بکروں کو جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا لیکن ان کے ٹکڑے اتنے نہیں تھے کہ گھر کے باہر جمع ہجوم کو خوش کر سکتے چنانچہ مکمل خاموشی اختیار کی گئی اور خواتین خاموشی سے اپنے کام میں لگ گئیں۔ ان دنوں اخباروں نے عید سے قبل مضامین چھاپ دیے اور شرعی آداب اور قانون کے مطابق قربانی کر دی گئی۔ ہمارے حکمران تو حسب معمول عید کے موقع پر ملک سے باہر چلے گئے کہ ان کی شریعت میں مسائل قدرے مختلف انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔
بہرکیف اللہ ان کی نیتوں کے مطابق ان کی قربانی کو قبول فرمائے اور انھیں اصلی پل صراط پر سے بخیریت گزار دے، اس دنیا کی پل صراط جو ان حکمرانوں کو درپیش ہے۔ دعا ہے کہ وہ اس پر سے بھی بہ عافیت گزر جائیں اور اپنے ساتھ قوم اور ملک کو بھی سلامتی کے ساتھ ہر مشکل راستے اور پل صراطوں سے گزار دیں۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے کہ یہ حکمران بدکردار اور برے نہیں ہیں تو کیا ان کے گرد وپیش میں غلط لوگ جمع ہو گئے ہیں یا ان کی پالیسیاں ناقص ہیں۔ مثلاً بھارت کے ساتھ دوستی کی پالیسی بہرحال پاکستانیوں کو قبول نہیں ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے لیکن باعزت زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔
اس سال ٹیلی ویژن نے بھی خوب عید منائی، ہر چینل نے حسب توفیق پررونق پروگرام پیش کیے اور مجروں میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں مصروف رہے۔ میں نے ایک چینل پر عابدہ پروین کا پروگرام بھی دیکھا۔ انھوں نے ایک غزل بھی سنائی:
جب سے تم نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
عابدہ کی آواز اور شاعر کا کلام دونوں نے رنگ باندھ دیا اور عید لوٹ لی لیکن جناب عید تو ایک اور صاحب نے لوٹی ہے۔ وہ گجرات کے ایک پولیس افسر تھے، نہ تو وہ گجرات کے چوہدری تھے نہ وہ میاں افضل حیات کی طرح جدی پشتی رئیس تھے اور نہ ہی ہمارے گجرات کے سپہ سالار کی طرح نشان حیدر بھائی کے برخوردار تھے۔
یہ تینوں بڑے اعزاز جن کے پاس تھے انھوں نے عید پر قربانی ضرور دی ہو گی مگر خاموشی اور شائستگی کے ساتھ جیسے کہ یہ سنت ابراہیمی ادا کرنی چاہیے لیکن میں جس گجراتی کا ذکر کر رہا ہوں وہ گجرات کا جم پل تھا یا نہیں گجرات میں تعینات ضرور تھا۔ یہ ایک تھانیدار تھا جس نے تھانیداری کے انداز میں وج گج کر قربانی دی۔
ہم آپ نے بڑا کمال کیا ہو گا جو دو تین بکرے ذبح کر دیے ہوں گے اور بس لیکن اس تھانیدار نے پہلے تو ایک ریوڑ سے بکرا خریدنے کی کوشش کی لیکن گستاخ چرواہے نے قیمت میں رعایت دینے سے انکار کر دیا مگر اس احمق نے یہ نہ سوچا کہ وہ کس کو انکار کر رہا ہے چنانچہ اس چرواہے کو اس کی سزا یہ ملی کہ تھایندار صاحب نے اس کے بکرے بکریاں قریب کی ریل کی پٹڑی پر دھکیل دیں اور وہ بڑی تعداد میں ریل کی پٹڑی پر چڑھ گئیں اور پھر اوپر سے ریل گاڑی آ گئی چنانچہ چالیس پچاس بکرے بکریاں ریل گاڑی کے بھاری پہیوں کے نیچے آ کر کچلی گئیں۔
یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تھانیدار صاحب کی جس بکرے پر نظر تھی وہ انھیں زندہ مل گیا یا پٹڑی پر چڑھ گیا۔ لگتا یہی ہے کہ اس مرگ انبوہ میں یہ بھی دوسرے بھائی بہنوں کے ساتھ بوٹی بوٹی ہو گیا۔ ہم نے ٹی وی پر ان بکروں کو قطار اندر قطار مرا ہوا دیکھا جو حرام موت مر گئے۔ ذبح بھی نہیں کیے جا سکے چنانچہ ایک تو قیامت صغرا مکہ مکرمہ میں حاجیوں پر گزر گئی دوسری ان بے زبان مویشیوں پر۔ قدرت کو نہ جانے کیا منظور ہے اور وہ اپنے بندوں کو کیا سزا دینا چاہتی ہے۔ میں پنجاب میں اس قربانی کو تھانیدار کی قربانی کہوں گا کیونکہ ایسی قربانی آج سے پہلے کبھی نہیں کی گئی۔