چند دن بلیئر ہائوس میں
ہم ان دنوں ایک بار پھر بڑے فخر اور برتری کا زعم لیے ہوئے امریکا کی سرکار کی خدمت میں حاضر ہیں
ہم ان دنوں ایک بار پھر بڑے فخر اور برتری کا زعم لیے ہوئے امریکا کی سرکار کی خدمت میں حاضر ہیں اور بڑی بات یہ ہے کہ ہم اپنے خرچ پر نہیں بلکہ ان کی عنایات خسروانہ سے ان کے خرچ پر ان کے مہمان ہیں۔
ہمارے چند منتخب لوگ وفد میں شامل ہیں اور پاکستان کے سرکاری وفد میں اب ایک اچھا اضافہ ہوا ہے اور وزیراعظم کی صاحبزادی بھی اس وفد میں اپنے والدین کے ہمراہ شامل ہیں۔ کوئی ناراض ہو یا ہماری طرح خوش وہ ہماری بہو ہیں اور ہمارے لیے اس سرکاری اور شاہی وفد کی شان ان کے وجود سے ہے۔ ہمارے وزیراعظم چار روز تک امریکا کے سرکاری مہمان رہیں گے اور وائٹ ہاؤس سے متصل ایک عمارت بلیئر ہاؤس میں قیام کریں گے۔
یہ عمارت ان عمارات کا حصہ ہے جو وائٹ ہاؤس کے قریب ترین بلکہ ملحق ہیں۔ جناب صدر امریکا کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر کی عمارت وائٹ ہاؤس کے ایک طرف چھوٹی سی سڑک گزرتی ہے اسی سڑک کے ایک طرف بلیئر ہاؤس اور دوسری طرف وائٹ ہاؤس ہے سفید عمارت۔ امریکا کے ہنگاموں میں ایک بار اس عمارت کو آگ لگ گئی تھی عمارت تو بچ گئی لیکن رنگ و روغن خراب ہو گیا چنانچہ یہ طے ہوا کہ اب اس عمارت پر سفید رنگ کر دیا جائے اس طرح یہ وائٹ ہاؤس کہلایا یعنی سفید گھر۔ وائٹ ہاؤس سے ملحق پریس روم ہے جہاں دن رات رپورٹر اور ٹی وی کیمرے نصب رہتے ہیں۔
اس پریس روم کے سامنے وہ مشہور چھوٹا سا کمرہ یا بیٹھک ہے جہاں صدر امریکا پریس سے ملتے ہیں۔ یہ اتنا چھوٹا سا کمرہ ہے کہ رپورٹر ایک دوسرے کی گود میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ رپورٹروں میں مرد عورت سبھی ہوتے ہیں۔ میں ایک سے زیادہ مرتبہ یہاں رپورٹنگ کر چکا ہوں۔ ایک دائرے میں سامنے صدر امریکا کی کرسی ہے اس کے دونوں طرف غیر ملکی مہمان اور سامنے کی چھوٹی سی جگہ پر صحافی۔ یہ ہے وہ کمرہ جہاں سے دنیا بھر کو ہدایات جاری ہوتی ہیں اور امریکا اپنے جاہ و جلال کو ظاہر کرتا ہے۔
میں جب بھی دنیا کے اس اہم ترین کمرے میں داخل ہوا اس کا سفید فرش اکھڑا ہوا ملا۔ ایک بار پاؤں پھنس گیا تو فوراً جواب ملا کہ آیندہ آپ جب آئیں گے تو فرش کی مرمت ہو چکی ہو گی لیکن اس کے دو تین بار بعد تو مرمت نہیں ہوئی۔ پریس روم اور اس کمرے کے درمیان کا راستہ تو جیسے ہے ہی نہیں۔ البتہ راستے میں سنگ مرمر کی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں۔ اب جب حکمران نئے مزاج کے آئے اور ہم لوگوں نے رپورٹنگ ختم کر دی تو معلوم نہیں کہ دنیا کا یہ اہم ترین زمین کا ٹکڑا کس حال میں ہے۔
بات بلیئر ہاؤس کی ہو رہی تھی جو ایک عام سی عمارت ہے اور اپنے ہاں مقیم مہمانوں کو اطلاع دیتی ہے کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے اور طاقت ور لوگوں کا مہمان خانہ ہیں اس لیے جیسا بھی ہے اس میں قیام پر فخر کریں۔ میں ایک بار سرکاری وفد میں شامل تھا کہ مجھے یہاں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔ وفد کے دوسرے ارکان تو رخصت ہو گئے مگر میں تو ایک صحافی تھا مجھے کوئی جلدی نہیں تھی۔ بلیئر ہاؤس کے کمرے ایک جیسے تھے کسی عام سے صاف ستھرے اچھے ہوٹل کی ضروریات سے آراستہ کمرے۔ دو تین دن بعد تولیہ بدل دیا جاتا تھا لیکن صابن وہی رہا جو پہلے دن سے موجود تھا۔
امریکیوں کی پسند کا کھانا جو آرڈر پر مل جاتا تھا البتہ بلیک کافی ہر وقت تیار موجود رہتی تھی جو امریکیوں کا مشروب ہے۔ جتنے دن میں یہاں مقیم رہا امریکا کا کوئی سرکاری مہمان نہیں آیا۔ البتہ ایک دن ہاؤس کے ایک آدمی نے پوچھا کہ سر آپ کا کیا پروگرام ہے۔ میں نے کہا میں آج شام جا رہا ہوں اس پر اس نے گاڑی بھیجنے کی بات کی مگر میں نے کہا کہ اس کا بندوبست ہو چکا ہے اور اس طرح میں کوئی پانچ چھ دن امریکی سرکار کا مہمان رہا اور امریکا کے سب سے بہتر مہمان خانے میں قیام رہا جہاں اس وقت ہمارے وزیراعظم اور شاہی خاندان کے چند دوسرے افراد مقیم ہیں۔
یہ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا جو اپنے ساتھیوں کو وی وی آئی پی کا مقام دیا کرتے تھے اور ان کی سرکاری عزت افزائی میں کنجوسی نہیں کرتے تھے۔ کبھی جی چاہتا ہے کہ صدر صاحب کے عوام سے برتاؤ اور دوستوں کی آؤ بھگت کی کچھ یادیں تازہ کر لوں لیکن افسوس کہ کرنل سالک چلے گئے جن کے پاس ہماری بعض یادداشتوں کا ریکارڈ تھا جسے وہ ساتھ لیے رہتے تھے اور یہ بریف کیس بھی ساتھ ہی چلا گیا۔ بھٹو کی سزائے موت اور بھٹو صاحب کے دوستوں کا گھروں بلکہ صوبوں تک سے فرار اور جاں بخشی تک کی درخواستیں مگر چھوڑئیے انسان نظریات اور عقیدوں کے لیے قربانی دیتے ہیں افراد کے لیے نہیں...