بہت بڑا ملک اور لیڈر…
تموچن یوں تو ایک سردار کا بیٹا تھا اور وسطی ایشیا کے سرداروں اور اشرافیہ میں شمار ہوتا تھا
تموچن یوں تو ایک سردار کا بیٹا تھا اور وسطی ایشیا کے سرداروں اور اشرافیہ میں شمار ہوتا تھا لیکن کمزور تھا اور لشکر بھی برائے نام تھا۔ حالت یہ تھی کہ جب کبھی بھوک زیادہ ستاتی تھی تو کسی سوراخ میں ہاتھ ڈال کر کوئی چوہا یا اس جیسا کوئی جاندار پکڑ لیتا، اسے کھا کر بھوک مٹا لیتا اور تازہ پانی پی کر اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر قبائلی سرداری میں کسی طرف نکل جاتا۔ اپنے مرحوم سردار کے بڑے بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر اس کے بزرگ کبھی اسے پکڑ لیتے اور پاس بٹھا کر سمجھاتے کہ گردوپیش میں دور دور تک تمہارے مرحوم سردار باپ کے دوست موجود ہیں تم ان کے پاس مدد کے لیے کیوں نہیں جاتے، وہ تمہیں ہر گز مایوس نہیں کریں گے لیکن نوجوان تموچن کے ذہن میں مستقبل کے جو خواب تھے وہ اسے کہیں دور لے جانا چاہتے تھے۔
تموچن اپنے بزرگوں کے سامنے صرف اتنا کہہ پاتا کہ جب میں کسی قابل ہوں گا اور اپنے باپ کے دوستوں کو سلام کرنے جاؤں گا اب میری کیا حیثیت ہے کہ میں ان بڑے سرداروں سے مدد مانگوں اور بھیک میں ایک آدھ گھوڑا یا چند تلواریں حاصل کر سکوں۔ اس کے بزرگ اس بلند ہمت نوجوان کے سامنے چپ ہو جاتے لیکن تموچن اپنی تعمیر میں لگا رہا اور دنیا نے دیکھا کہ چوہے کھانے والا یہ نوجوان چنگیز خان کے نام سے دنیا کا ایک بڑا فاتح ہے۔
کمزور اپنی کمزوری کو بھی اپنی طاقت بنا لیتے ہیں اور اسی کمزوری میں کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں تاآنکہ تاریخ ان کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور وہ انسانوں کی تاریخ کا ایک قابل رشک حوالہ بن جاتے ہیں۔ تاریخ ان کے موڑ مڑتی ہے اور ان سے شروع ہوتی ہے اور ان پر ختم ہو جاتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے تموچن نے چنگیز خان بن کر دنیا کو لرزا دیا اور اپنی چھینی ہوئی سلطنت کو اپنے لائق اور نالائق بیٹوں پوتوں کے سپرد کر کے چلا گیا۔ صحرائے گوبی کی جھیل بیکال کے کسی کنارے درختوں کے جھرمٹ میںا سے دفن کر دیا گیا اس کی قبر کا کسی کو یقینی علم نہیں ہے لیکن چنگیز خان کو پوری تاریخ خوب جانتی ہے۔
بات ذرا لمبی ہو گئی ہم بھی تاریخ کے کسی تموچن کی طرح اپنے بزرگوں کی باتیں سن رہے ہیں اور قائل ہو گئے ہیں کہ اپنی دنیا بنانے کے لیے ان سے مدد مانگیں کیونکہ زمانہ بہت بدل گیا ہے اور اس زمانے میں تموچن کا آہنی عزم ہی اس مشکل دنیا میں کہیں اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ مجھے یہ باتیں امریکی صدر اوباما کے ساتھ اپنے لیڈر کی ملاقات کے بعد یاد آئی ہیں جو اوباما کے ہاں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ اترے تھے۔
ہمارے لیڈر کی طرح اوباما بھی ایک مہاجر ہے، افریقی مہاجر اور یہ ہجرت اس کے سر کے بالوں پر لکھی ہوئی ہے لیکن امریکا کے مہاجروں نے نئے ملک کو اپنا مستقل ملک بنا لیا ہے ان کی غریبی امیری سب اسی امریکی سرزمین پر ہے اسی پر وہ غریبانہ زندگی بھی بسر کرتے ہیں اور اسی پر اپنی دولت مندی کی زندگی بھی بسر کرتے ہیں کہ دنیا بھر کو خیرات دیتے ہیں اسی خیرات اور عالمی اثر و رسوخ نے اسے دنیا کا امام اور حکمران بنا دیا ہے اور یہی اس کی حیثیت ہے کہ بلاشبہ زمینی وسائل سے مالا مال اور افرادی قوت سے سرشار ایک نظریاتی ملک پاکستان آج اپنی بقا اور عزت کے لیے اس کے در پر حاضر ہے۔
میں نے کس دل سے جناب اوباما اور جناب نواز کو آمنے سامنے بیٹھا دیکھا یہ میرا دل ہی جانتا ہے ایک احمقانہ بات کہ مہمان اور میزبان کو اس کے لائق ہونا چاہیے تھا لیکن یہ دنیا صرف ان کی ہے جو اسے اپنے لیے تعمیر کرتے ہیں اور اسے بناتے ہیں اور پھر اپنے ہاں دنیا بھر کے سائلوں کی حاجت روائی کرتے ہیں۔
بہر کیف اپنی مذمت میں جتنا کچھ جی چاہے کہہ لیں لیکن سبق سیکھیں تو بات بنتی ہے۔ ہم خوراک میں خود کفیل ہیں لباس میں آراستہ ہیں چھوٹا بڑا ہر قسم کا ضرورت کے مطابق ایٹم بم رکھتے ہیں اور دفاع میں خود کفیل ہیں کیونکہ ہمارا سپاہی جنگ نہیں لڑتا اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے جہاں اس نے اپنی ابدی زندگی بسر کرنی ہے یوں خدا بڑا بول نہ بلوائے ہم ایک بہت بڑے ملک کے لیڈر ہیں مگر قوم کی اس تمنا کے ساتھ کہ اس کے لیڈر بھی اس کے ملک جتنے بڑے ہوں۔