اقبال بھی بھلا دیا مگر اقبال کون
محمد علی جناح اس خطے کے مسلمانوں کا لیڈر تھا اور اقبال کا بھی۔
KARACHI:
شعر و شاعری کے ذوق فراواں اور نظریاتی نعمت سے معمور سیالکوٹ کا ایک نوجوان شاعر اقبال ولد نور محمد سیالکوٹی کسی زمانے میں سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہو گیا۔ ملا عبدالحکیم جیسے مایہ ناز عالم کے شہر سے تمام برکات سمیٹ کر وہ داتا کی نگری میں مقیم ہو گیا اور سیالکوٹی سے لاہوری بن گیا۔
یہاں وہ شاعر مشرق اور نہ جانے کیا کیا کہلایا اور اس نے مسلمانوں کے اس خطے کو اپنے نظریات اور اسلامی جذبات کی روشنی بلکہ آگ سے بھر دیا اور یہ غلام دنیا نہ جانے کیا سے کیا ہو گئی۔ یہ نوجوان مغرب کا تعلیم یافتہ تھا لیکن خدا نے اس کے دل کو مشرقی علوم اور دینی جذبات سے منور کر دیا اور وہ زندگی کے آخری لمحے تک یہ نور پھیلاتا رہا۔ اس نے اپنے جذبات کی روشنی سے جہالت بے کسی اور پژمردگی کی کیفیات کو ماضی کا قصہ بنا دیا، مسلمان قوم کو ایک نئی زندگی دی اس کے شعروں اور نثری تحریروں نے مسلمانوں کے سیاسی لیڈر سے مل کر ایک نیا ملک تخلیق کر دیا جس میں اس خطے کے مسلمانوں نے ہمیشہ کے لیے تحفظ حاصل کر لیا۔
محمد علی جناح اس خطے کے مسلمانوں کا لیڈر تھا اور اقبال کا بھی۔ نظم و نثر کے اس ملاپ نے نئی دنیا تخلیق کی اسے پاکستان کا نام دیا اور خود لاہور شہر کو اپنا مستقل مسکن قرار دے دیا۔ قدرت کا یہی اشارہ تھا۔ ایک مرد غیب نے غلام مسلمانوں میں اس قدر طاقت بھر دی کہ وہ ایک بے مثال ملک بنانے میں کامیاب ہو گئے اور دوسرے نے اس ملک کے باشندوں کو روحانی زندگی اور زندہ پایندہ جذبات سے بھر دیا۔ اس طرح ان دونوں نے تاریخ کا یہ معجزہ کر دکھایا۔
دنیا کے اس خطے میں بلکہ پوری دنیا میں جتنے ممالک بھی تھے ان میں سے کوئی ملک بھی نیا نہیں تھا سبھی پہلے سے موجود تھے جنہوں نے نئے نظریات اختیار کیے اور نئے نام سے ایک دنیا آباد کی لیکن انسانی تاریخ میں پہلی بار کسی نے یہ معجزہ کر دکھایا کہ اس سرزمین پر ایک بالکل نیا ملک بنا دیا جس کا نام تھا پاکستان۔ اس کے دو بانی تھے ایک سیاسی جناب محمد علی جناحؒ جن کی سیاسی بصیرت اور توانائی نے اس ملک کو اس کے دشمنوں سے چھین کر ایک ملک بنا دیا اور اس ملک کو دنیا کی تاریخ کا ایسا پہلا ملک قرار دیا جس کی بنیاد قرآن و سنت یعنی دین محمدی پر رکھی گئی۔
اس سے پہلے بھی کئی اسلامی ممالک موجود تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی اسلام کے نام پر قائم نہیں ہوا تھا سبھی پہلے سے کسی نہ کسی نام اور نظریے سے موسوم تھے۔ کوئی عرب تھا کوئی عراق تھا تو کوئی مصر تھا اور کوئی نہ جانے کیا کیا تھا لیکن ان سب کو مسلمان ملک بنا دیا گیا ان میں سے سب سے پہلا مسلمان ملک پاکستان تھا جسے دنیا نے تسلیم کیا۔
اس ملک کی ایک سیاسی بنیاد تھی جو محمد علی جناح نے رکھی تھی اور ایک اس کی روحانی اور جذباتی بنیاد تھی جو ایک سیاستدان کے حصے میں نہیں ایک شاعر کے حصے میں آئی اور قدرت نے اس شاعر کو وہ کمال عطا کیا کہ اس نے اللہ کا نام لینے والی قوم کو بدل دیا اور آنحضرتﷺ کی برکت سے اس قوم کو حضور پاکؐ کی خدمت میں پیش کیا جو نئے جذبات اور قربانی کے شوق میں دیوانہ تھی۔
اس وقت مقصد پاکستان کی تاریخ بیان کرنا نہیں اس کے ایک بانی سے پاکستانی قوم کی بے اعتنائی کا ماتم کرنا ہے۔ یہاں کچھ بڑوں کے نام پر چھٹی کا رواج ہے۔ پاکستان کے ایک بڑے اقبال کے نام پر بھی چھٹی ہوا کرتی تھی اور تعجب یہ ہے کہ پاکستان کے جس صوبے اور علاقے میں اقبال کا نام سب سے بلند تھا اسی صوبے کی حکومت نے سب سے پہلے فیصلہ کیا کہ اقبال کے یوم پیدائش پر چھٹی نہیں کی جائے گی۔ مسلم لیگ کی حکومت نے یہ حیرت انگیز فیصلہ کیا اور اس پر بضد رہی۔
یوں تو ہر پاکستانی اپنی اس بنیادی بے حسی پر روتا رہا لیکن پنجابیوں نے علامہ اقبال کے مزار پر جا کر اپنے اس لیڈر سے معافی مانگی۔ لمبی لمبی فاتحہ خوانی اور بھیگی ہوئی آنکھوں سے اپنی بے بسی اور اپنے حکمرانوں کی اقبال سے لاتعلقی کا ماتم کیا۔ پاکستان کی تاریخ اور پاکستانی قوم کی روحانی اور جذباتی زندگی سے اگر اقبال نکال دیا جائے تو اس کے بعد ہمارے حکمران رہ جاتے ہیں جن کا اقبال کے ساتھ موازنہ کرنے کی جرات شاید ہی کسی میں ہو البتہ ایک پٹھان چوکیدار میں ایک جرات دیکھی گئی۔
یہ الیکشن کا دن تھا جس میں علامہ اقبال کا بیٹا مرحوم جاوید اقبال بھی ایک امیدوار تھا پنجاب میں الیکشن ہو رہا تھا۔ سہ پہر کو الیکشن ختم ہوا۔ چھٹی کا دن تھا اور ہر طرف خاموشی۔ میں اس وقت لاہور کی بڑی سڑک مال روڈ سے بھاری قدموں کے ساتھ گزر رہا تھا۔ جاوید اقبال یہ الیکشن ہار گئے تھے۔ میں نے اپنے قریب بیٹھے ایک پٹھان چوکیدار کی آواز سنی جس میں دکھ بھی تھا اور غصہ بھی۔ وہ کہہ رہا تھا ''اوئے پنجابی بے حمیتو تم نے اقبال کے بیٹے کو ہرا دیا''۔ اور یہ الفاظ وہ بے خوف ہو کر بار بار دہرا رہا تھا۔ اس کا دل صاف تھا۔
آج جب اقبال کے نام پر چھٹی منسوخ کر دی گئی ہے تو مجھے اس پٹھان کے یہ الفاظ ذرا سی تبدیلی کے ساتھ یوں یاد آ رہے ہیں کہ ''پنجابی بے حمیتو تم نے اقبال کو بھی بھلا دیا''۔