پیرس میں مونا لیزا کے ساتھ

مغربی ملکوں اور قوموں کی طویل سامراجیت اور لوٹ کھسوٹ کا ایک اعلیٰ نمونہ فرانس کا دارالحکومت پیرس ہے


Abdul Qadir Hassan November 18, 2015
[email protected]

مغربی ملکوں اور قوموں کی طویل سامراجیت اور لوٹ کھسوٹ کا ایک اعلیٰ نمونہ فرانس کا دارالحکومت پیرس ہے جسے فرانس والے اپنے لہجے میں پیار سے 'پیغی' کہتے ہیں۔ یہ شہر بلاشبہ ایک آراستہ اور مرصع شہر ہے اور تو اور اس شہر کی دیواریں بھی نقش و نگار سے خالی نہیں اور سڑکوں گلیوں کے فرش بھی پتھر کی بیش قیمت اینٹوں سے ڈھانپ دیے گئے ہیں جن پر لوہے کی گاڑی بھی چلے تو کوئی نشان چھوڑے بغیر چل سکتی ہے۔

فرانس والوں نے یہ شہر کچھ اس طرح بنا دیا ہے کہ جس طرف بھی نظر اٹھتی ہے کوئی تصویر ہی نظر آتی ہے۔ مشرقی شاعر یہاں آئیں تو ان کے شعری ذوق کا دماغ گھوم جائے۔ پیرس جو میں نے کئی بار گھوم پھر کر دیکھا ہے اور اس پر اپنی توفیق سے بڑھ کر خرچ بھی کیا ہے بلاشبہ یہ ایک دیکھنے کا شہر ہے ایک نظارہ ہے اور اگر آپ جوان ہیں تو پھر آپ جانیں اور اس شہر کے مرصع و مرقع ناقابل یقین وہ جسم اور چہرے جنھیں اپنی نمائش کا آرٹ آتا ہے جو جوانی اور اس آرٹ کے ساتھ گویا جڑواں پیدا ہوئے ہیں۔ یوں تو سامراجی یورپ کا ہر شہر اپنے سامراجی دور کی لوٹ کھسوٹ کی برکات کا زندہ نمونہ ہے لیکن پیرس پیرس ہے۔

کسی شہر کا سامراجی دور جتنا بار آور ہو گا اس کا شہر اتنا ہی دلربا ہو گا لیکن پیرس کے باشندوں کو خوبصورت زندگی بنانے کا فن قدرت کے خزانے سے وافر مقدار میں ملا ہے انھوں نے سرزمین یورپ کے ایک شہر کو یورپ کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں یاد گار بنا دیا ہے۔ یوں تو لندن بھی ایک زبردست سامراج کا شہر رہا ہے اور یورپ کے بعض دوسرے کئی شہر بھی کسی نہ کسی اپنی محکوم دنیا کا عکس سمیٹے ہوئے ہیں لیکن فرانس والوں نے اپنے محکوم سیاہ فام افریقہ پر حکمرانی کی نئی اور انوکھی چمک دمک دی ہے۔ فرانسیسوں نے کالے افریقہ کے رنگ کو کسی جادو کے کرشمے سے بدل دیا ہے۔

نپولین نے بھی اپنی فتوحات سے ان کی بڑی مدد کی ہے لیکن حسن شناسی کا جو جوہر اہل فرانس کو قدرت نے عطا کیا ہے وہ یورپ کی کسی دوسری سامراجی طاقت کو نہیں ملا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ میں نے اس بٹاکلاں ہال میں بھی کچھ لمحے گزارے تھے جہاں حملہ ہوا ہے لیکن اس کے مہنگے ٹکٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے میں باہر نکل آیا کہ یہاں کا موسیقی کا ہنگامہ میری پسند کا ہر گز نہیں تھا باہر نکل کر مجھے خیال آیا کہ جو لوگ ٹکٹ کے لیے لمبی قطار میں کھڑے ہیں میں یہ ٹکٹ ان میں سے کسی کو دے دوں لیکن معلوم ہوا کہ یہ ٹکٹ اب کسی کو دوبارہ اندر نہیں لے جا سکتا۔

میری خوش دلانہ مشرقیت مغرب کی چالاکی سے ہار گئی اور میں سیٹی بجاتا ہوا اس بڑی کھلی جگہ پر گھومنے پھرنے لگا جو اپنی وسعت سے کسی بڑے شہر کے اندر ایک عجوبہ تھی۔ اس کے قریب ہی میں نے شانزے لیزے کے ایک برلب سڑک چائے خانے سے کافی کی ایک پیالی پی جس کے اندر ایک خوبصورت ریستوران تھا میں نے اس کے اندر جھانکا تو ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف برگر قسم کی کوئی چیز سامنے رکھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوش تھے۔ میں ان کے وفد میں بطور صحافی شامل تھا اور سرکاری خرچ پر کھا پی رہا تھا بلکہ اڑا رہا تھا اور پیرس میں موجودگی کے تصور سے سرشار تھا لیکن ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کے اہل خانہ سے دور تھا۔ پروٹوکول یہی کہتا تھا ورنہ میاں صاحب ایک بے تکلف میزبان تھے۔

پیرس کا شہر ہو اور اس میں لطف لینے کا خرچ سرکاری ہو تو آپ اندازہ کریں کہ کسی کا کیا حال ہو گا گھومتے پھرتے میں نے سامنے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ عجائب گھر ہے۔ میں اس میں گھس گیا اور گھومتے پھرتے اس تصویر کے سامنے جا کھڑا ہوا جو دنیا کی مشہور ترین تصویر ہے۔ ''مونا لیزا''۔ یہ تصویر دیوار میں ایک جگہ الگ کر کے اور خالی کر کے اس میں رکھ دی گئی تھی اور اس کے باہر دو سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔

میں کافی دیر اس اوریجنل مونا لیزا کو دیکھتا رہا کہ ایسا پر لطف منظر شاید ہی پھر دیکھ سکوں۔ آپ میری بدذوقی یا بے ذوقی پر ناراض نہ ہوں مجھے اس پینٹنگ میں کوئی بڑی حیرت انگیز بات نظر نہیں آئی سوائے یورپی اور فرانسیسی پروپیگنڈے کے کمالات کے آپ نے یقیناً بازار میں اس تصویر کی نقل دیکھی ہو گی اس کی مسکراہٹ کا بہت چرچا ہے۔ ایسی مسکراہٹ میں نے پاکستانی زندہ مولانا لیزاؤں میں بارہا دیکھی ہے اور اس پر وجد کیا ہے لیکن میرے پاس نہ تو کسی مسکراہٹ کو کاغذ پر منتقل کرنے کا آرٹ ہے اور نہ اس کے پروپیگنڈا کا عالمی ڈراما۔ اس عجائب گھر کے دوسرے حصے میں کئی ایسی پینٹنگ ہیں وہ انسان کو دم بخود کر دیتی ہیں اور مونا لیزا بھول جاتی ہے۔ یہ سب تصویریں مونا لیزا کی طرح باہر سے لائی گئی ہیں بلکہ اسمگل کی گئی ہیں۔

آج کی اصطلاح میں کبھی کوئی دہشت گرد مونا لیزا کو چھپا کر اٹلی سے آیا تھا۔ ویسے یہ تصویر فرانس میں بھی چوری ہو چکی ہے۔ مونا لیزا کی تصویر کے متصل اس کے سامنے چائے خانہ ہے جس کی ایک پیالی کافی مجھے اس تصویر سے زیادہ پر لطف محسوس ہوئی تھی لیکن میں پھر بھی دنیا کی اس مشہور ترین تصویر سے بہت مرعوب ہوا اور متاثر بھی۔ میں جب اس عجائب خانے سے باہر آنے لگا تو لاطینی امریکا کے کسی ملک کا ایک جوڑا مجھ سے مونا لیزا کا راستہ پوچھنے لگا۔ اب میں کیا کہتا کہ سامنے کھڑی یہ لاطینی لڑکی اس مونا لیزا سے زیادہ دلفریب ہے جس کا وہ پتہ پوچھ رہی ہے۔

میں پیرس کے جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا وہ مشہور زمانہ ساربون یونیورسٹی کے قریب تھا۔ ایک علمی علاقے اور طلبہ کے ماحول کی وجہ سے یہاں پیرس والی گرانی نہیں تھی اور برلب سڑک چائے خانے سستے تھے۔ جن میں ہر وقت طلبہ کا ہجوم رہتا تھا۔ میں چونکہ عمر میں ایک طالب علم نہیں لگتا تھا اس لیے کئی جگہوں پر مجھے پروفیسر کہہ کر مخاطب کیا جاتا۔ ساربون جیسی یونیورسٹی کا پروفیسر لیکن مغربی دنیا میں پروپیگنڈے کا جو طوفان برپا رہتا ہے اس میں مجھے کوئی بھی پروفیسر ثابت کر سکتا تھا۔ میں جب اس ریستوران میں داخل ہوا جہاں فرانس کے فلسفی سارتر اور اس سے پہلے کے دانشور نشست کرتے تھے تو مجھے بیرے نے بڑے ادب کے ساتھ ایک ایسی کرسی پر بٹھا دیا جس پر پیرس کا ایک مصور بیٹھا کرتا تھا۔

میں نے یہ پہلی بار دیکھا کہ پیرس میں خاص طور پر کئی ایک پرانے ریستوران محفوظ رکھے گئے ہیں جہاں اس شہر کی علمی شخصیتیں کبھی نشست کیا کرتی تھیں۔ ان کی کرسیاں تک سنبھال کر رکھی گئی ہیں۔ پیرس والے اگر اپنے شہر پر ناز کریں تو یہ بے جا نہیں اور اگر اس شہر میں دھماکے ہوں تباہی پھیلے انسان کا خون بہے تو پیرس والوں کے ساتھ افسوس کرنا چاہیے۔

یہ درست کہ ان کے اس شہر کی آرائش کا سرمایہ باہر سے آیا تھا سامراج کی لوٹ کھسوٹ سے لیکن پیرس والوں نے اس لوٹ کھسوٹ کو بڑے سلیقے کے ساتھ نئے انداز اور رنگ میں اپنے شہر میں سجا دیا۔ ان کے شہر میں بجلی کا کھمبا بنانے والے سے نا مکمل رہا تو انھوں نے کھمبے کو بھی ایک کشش دے دی اور اسے ایفل ٹاور کا نام دے کر اس کی لوہے کی سیڑھیوں پر چائے کافی بکنے لگی اور ان پر چڑھنے کے مقابلے شروع ہو گئے۔ رات کو کھمبا روشنیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔ اسے بجلی کی سپلائی کے لیے بنایا گیا تھا جو نہ ہو سکی مگر اس کھمبے کو روشن رکھا جاتا ہے باہر کی بجلی سے۔

آج پیرس کی جو حالت ہے اسے مکافات عمل بھی کہا جا سکتا ہے کہ فرانسیسیوں نے اس دنیا کے غریبوں کو غلام بنایا اور لوٹا مگر سلیقے کے ساتھ۔ اس کے نظارے اور رونق کو عام کر دیا ان کے لیے جو اس کی غربت اور غلامی نہیں دیکھ سکے تھے۔

مقبول خبریں