سیاست کی ایک آدھ جھلک
ہمارا ایک ابھرتا اور بھڑکتا ہوا لیڈر جس سے مایوس قوم کو کچھ امید اور توقع لگ گئی تھی
پاکستان کی 'وقت ٹپاؤ' سیاست پر لکھ لکھ کر قلم گھس گئے ہیں مگر ہم اپنے قارئین کو کسی مزید الجھن کے سوا کچھ نہ دے سکے کیونکہ جب ہمارے لیڈر ہمیں کچھ نہیں دیتے تو ہم قارئین کی خدمت میں کیا پیش کریں سوائے ذہنی پراگندگی اور اضطراب کے۔
ہمارا ایک ابھرتا اور بھڑکتا ہوا لیڈر جس سے مایوس قوم کو کچھ امید اور توقع لگ گئی تھی وہ اپنی نئی پرانی شادیوں میں الجھ گیا ہے اور اب تو پتہ چلا ہے کہ کچھ دلہنوں کے لیے اس کے ساتھ یہ سابقہ شادی ذریعہ روز گار ہی نہیں ذریعہ مال دوزی بھی بن گیا ہے اور ان کی قیمت اتنی بڑھی ہے کہ وہ ایک آدھ مضمون کے بھی لاکھوں روپے مانگ رہی ہیں یعنی جتنا ہم عمر بھر لکھتے ہوئے نہ مانگ سکے یا حاصل نہ کر سکے بلکہ یوں کہیں کہ جرات ہی نہ کر سکے مثلاً ایک دلہن نے ایک اخبار سے 35 ہزار پونڈ مانگے ہیں اور ہماری عمر بھر کی محنت کو شرمندہ اور پامال کر دیا ہے وہ بھی صرف ایک مضمون کے۔ اتنا تو ہم عمر بھر لکھ لکھ کر نہ کما سکے جتنا اس خاتون نے اپنی گزشتہ شادی کے بارے میں اپنے تازہ تاثرات کا مانگ لیا ہے۔
یہ شادی جو صرف دس ماہ جاری رہی یعنی بے نتیجہ نو ماہ سے کچھ زیادہ۔ یہ خاتون اسی مختصر سی ازدواجی زندگی کا معاوضہ طلب کر رہی ہے وہ بھی ایک غیر متعلقہ فریق یعنی ایک اخبار سے۔ اخبار نے غوروفکر کے بعد یہ مضمون چھاپنے سے معذرت کر لی کیونکہ اس سے اخبار کو اپنی زندگی خطرے میں دکھائی دے رہی تھی۔
ہونا یہ تھا کہ ایک مضمون تو چھپ جاتا مگر اس کے کئی نکات اور اسرار و رموز باقی رہ جاتے جو مزید مضامین کا تقاضا کرتے۔ تجربہ کار یا کنجوس ایڈیٹر نے معذرت کر کے اپنا مستقبل بچا لیا۔ یہ ظاہر تھا کہ ایسی مشہور شادی اخباری مضامین کے بغیر اپنی شہرت قائم نہیں رکھ سکتی اور شہرت قائم نہ رہے اور قارئین میں تجسس باقی نہ رہے تو پھر یہ سابقہ نیم سیاسی شادی کس کام کی۔
ہمارے ہاں یہ پہلی شادی ہے جو اس قدر بار آور ثابت ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور ہاتھ ذرا سا ہولا رکھا جاتا تو مناسب حد تک قیمتی مضامین کا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا لیکن خاتون محترم کو معلوم ہوتا ہے کوئی اچھا تجربہ کار سیکریٹری نہیں مل سکا اور سلسلہ کلام و بیان چل نہیں سکا ورنہ ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں جو قارئین کی پیاس بڑھا رہی ہیں اور ایک ایک راز سے کئی مضامین نکل سکتے ہیں اور سلسلہ روز گار جاری رہ سکتا ہے۔
شادی صرف یہی ایک ہی نہیں لیکن فی الحال خبروں کی مارکیٹ میں یہی مال مل رہا ہے اور ہر روز اس کا کوئی نہ کوئی شوشا قارئین کو مزید بے چین کر دیتا ہے۔ بات صرف کسی ایک دلہن کی نہیں دلہے کی بھی ہے جو محض شادیوں کا شوقین ایک ادھیڑ عمر کا مرد ہی نہیں بلکہ بذات خود ایک مسلسل خبر ہے اس کی سیاست ہی خبروں سے بھری ہوئی تھی کہ ان میں شادی کا تڑکہ بھی لگ گیا ہے۔
ہمارے اس لیڈر دلہا کی یہ دوسری تیسری مشہور شادی ہے ورنہ اصل شادی تو پہلی تھی جو خالص دساور کی یعنی برطانوی تھی لیکن وہ خاتون بذات خود اتنی رئیس تھی اور اتنے مشہور گھر کی تھی کہ اس نے ایسی چھوٹی باتوں پر توجہ ہی نہیں دی بلکہ وہ الٹا اپنے سسرال کو بہت کچھ دے کر گئی اور سنتے ہیں کہ وہ اب بھی اپنے سابق دلہا کی مہمان نوازی کرتی رہتی ہے۔
یوں وہ کوئی بھوکی نہیں ایک رئیس اور مشہور باپ کی بیٹی ہے۔ بھوکی تو ہماری پاکستانی تھیں اور ٹھیک تھیں کہ شادی پر کوئی مضمون لکھ کر ایک باعزت طریقے سے کچھ کما لیتیں تو بھوک میں کمی ہوتی اور شاید مشہوری بھی زیادہ ہو جاتی کہ یہ سلسلہ کلام چلتا رہتا۔ کبھی کبھار ایک آدھ مضمون لکھ دیا اور ہمارے جیسے قلمکاروں کی سال دو سال کی کمائی جتنی دولت اسی سے جمع کر لی۔
کسی خاتون کی شادی تو اس کے لیے ایک ذریعہ روز گار بن گئی لیکن ہم پاکستانی ایک ابھرتے ہوئے لیڈر سے کچھ محروم ہو گئے یا یوں کہیں کہ ہمارا سارا مزا کرکرا ہو گیا۔ جناب عمران خان اب بھی ایک پارٹی کے لیڈر ہیں اور ملک کی دو تین بڑی پارٹیوں میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان کا سیاسی اسٹائل ذرا مختلف قسم کا لگتا ہے۔
وہ کرکٹ کی بلندیوں سے سیاست کی پچ پر آئے ہیں اور یہاں بھی آتے ہی چوکے چھکے لگائے ہیں لیکن وہ کرکٹ کے تجربہ کار بالر ہونے کے باوجود سیاست میں ذرا دھیمے رہے۔ سیاسی مشہوری تو بہت ملی مگر وہ سیاستدانوں کی طرح صبر اور تحمل کے ساتھ چل نہیں سکے اور جلدی کر گئے ورنہ ایک وقت تھا کہ ان کی سیاست میں آمد پر سیاستدانوں میں تھرتھلی مچ گئی تھی اور وہ پرانے سیاستدانوں کے لیے زندہ جوان خطرہ بن گئے تھے لیکن وہ اپنا یہ سیاسی ہوا زیادہ دیر قائم نہ رکھ سکے اور اب تو لگتا ہے کہ ان کی شادی کا چکر بھی کسی سیاستدان کا کوئی چکر تھا جس میں وہ پھنس گئے لیکن سیاست میں تو سب چلتا ہے اور اب ہم ان کی اس ازدواجی سرگرمی کا لطف اٹھا رہے ہیں یعنی ان کی بیگمات کی آپ بیتیوں سے۔ عمران کے عوام ان کی واپسی کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کے حریف سیاستدان ان کو کسی نئے دھکے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
ہماری سیاست میں ایسی رونق پہلی بار عمران خان کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ورنہ ہم تو اپنے سیاستدانوں سے حب الوطنی وغیرہ کے وعظ ہی سنتے رہے۔ وہ حلوے کھاتے رہے اور ہم ان کے لقمے گنتے رہے۔ عمران نے سیاست کو کچھ بدلا ہے اور اس میں حسن کی جھلک اور چاشنی بھی پیدا کی ہے یوں سیاست ہم عوام کے لیے بھی قابل برداشت بن گئی ہے اور اس میں ایک ایسی رونق پیدا ہو گئی ہے جو فی الحال سلسلہ جاریہ لگتی ہے۔
ابھی اس نئے پاکستانی لیڈر کی کسی پرانی بیگم کا مضمون نہیں چھپا اس کا انتظار ہے تاکہ بزم آرائیوں کا نیا سلسلہ شروع ہو سکے اور بور سیاستدانوں میں بھی کچھ زندگی پیدا ہو۔ آئیے ہم سب مل کر عمران خان کے کسی اگلے قدم کا انتظار کرتے ہیں جس کی کوئی جھلک کسی بلدیاتی الیکشن میں بھی دکھائی دے سکتی ہے۔ خواہش ہے کہ عمران یا اس کی کوئی پرانی بیگم عوام کے لیے کچھ کرتی رہے اور عوام کو خشک سیاست سے بچا کر رکھے۔