ڈی سی کی گھوڑی

میں آج جس گجرات شہر کا حوالہ دے رہا ہوں وہ اب کا نہیں کچھ پہلے کا ہے


Abdul Qadir Hassan November 21, 2015
[email protected]

میں آج جس گجرات شہر کا حوالہ دے رہا ہوں وہ اب کا نہیں کچھ پہلے کا ہے ذرا زیادہ پہلے کا کیونکہ آج کا گجرات سیاست میں پڑ چکا ہے بلکہ قومی مسائل پر قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ آج میرے والا گجرات اصلی گجرات ہے جس میں سب کچھ ہوا کرتا تھا۔ مثلاً اس شہر کا ایک چور بہت مشہور تھا اور اس کا بڑا دبدبہ تھا شاید آج کے سیاسی گجراتیوں سے بڑھ کر' ایک رات کو گپ بازی کے دوران کسی نے کہا کہ چاچا مزا تو تب آئے جب ڈی سی کی گھوڑی چوری ہو جائے۔

چاچے نے جس کا نام بھول چکا ہوں توبہ توبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ تو ڈی سی کے گھر سے بھی دور فاصلہ لمبا کر کے گزرتے ہیں۔ ہماری کیا مجال کہ اتنی بڑی گستاخی کر سکیں۔ بات ختم ہو گئی لیکن دوسری صبح کو ہی یہ خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ ڈی سی صاحب کی گھوڑی چوری ہو گئی ہے اور کچھ پتہ نہیں چل رہا خیال ہے کہ وہ دریا کے پار لے جا کر کہیں باندھ دی گئی ہے یا کسی دور جگہ پر محفوظ کر دی گئی ہے کیونکہ ضلع بھر کی پولیس چکرائی ہوئی پھرتی ہے مگر گھوڑی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ چاچا حسب معمول چپ چاپ اپنی معمول کی مصروفیات میں لگا ہوا تھا اور حسب معمول استاد امام دین گجراتی کا شعر گنگنا رہا تھا۔ استاد کی تُک بندی بہت مشہور ہے۔ اقبال کے بانگ درا کے مقابلے میں استاد کا کلام بانگ دہل کے نام سے محفوظ اور مطبوعہ ہے۔ استاد کی شوقیہ تُک بندیاں اپنی جگہ مگر اندر سے وہ ایک بڑا شاعر تھا استاد کا صرف ایک شعر عرض کرتا ہوں جو اس کی نجات کے لیے بھی کافی ہو گا۔

محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے

زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے

استاد دامن کے زمانے کے گجرات کا ذکر ہو رہا ہے نام یاد نہیں آ رہا اس پرانے گجرات کا ایک سرگرم چور ڈی سی کی گھوڑی بھی چرا کر لے گیا اور کہیں ایسی گم کر دی کہ وہ پتہ نہیں کب کہیں ملی بھی یا نہیں۔

مجھے گجرات کے اس مشہور ہنر مند کی یاد لاہور کی ایک چوری سے آئی ہے جو کسی ڈی سی کی گھوڑی سے بڑھ کر قیمتی اور نام والی چوری ہے۔ پنجاب اور پاکستان کے حکمران میاں صاحبان کے مرحوم بھائی کی بیٹی کے ہاں یہ چوری ہوئی ہے۔

چورنیاں دو عورتیں تھیں جو چند دن پہلے ملازم رکھی گئیں ان دونوں نے منصوبے کے تحت چوری کر کے گھر کا صفایا کر دیا اور ایک ایسے گھر کا جس کی دولت کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں پولیس ڈی سی کی گھوڑی کی طرح ان دونوں چورنیوں کی تلاش میں سرگرم ہے لیکن ابھی تک وہ ان تک نہیں پہنچ سکی۔ پہنچ بھی گئی تو سوال پیدا ہو گا کہ مال کہاں ہے جو نہ جانے کس خفیہ مقام پر جمع کر دیا گیا ہو گا۔ چوری کامیاب رہتی ہے تو ان دونوں قابل رشک خواتین کی تو زندگی بن گئی اور اگر چوری اور چورنیاں نہ ملیں تو پولیس کی بھی۔

ان دنوں ہمارے ہاں چوریاں ڈاکے عام ہو گئے ہیں۔ ہر روز اخباروں کے پہلے صفحوں پر کتنی ہی چوریوں بلکہ ڈاکوں کی خبریں چھپتی ہیں۔ ہر روز ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور پولیس بھی غالباً تھک ہار چکی ہے کہ اسے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ جنگلی اور آوارہ زندگی سے تنگ آ کر انسانوں نے منظم زندگی گزارنے کا بندوبست کیا جواب عروج پر پہنچ چکا ہے۔ شہریوں کی زندگی اور ان کے مال کی حفاظت اس نئی زندگی کا اولین مقصد ہے۔ یہ مقصد کبھی اچھی طرح حاصل ہوتا ہے اور کبھی حکومتوں کی سستی کی وجہ سے اس کی خرابی میں الٹا اضافہ ہو جاتا ہے۔

ان دنوں صرف لاہور شہر میں چور ڈاکو بے لگام پھرتے ہیں۔ ہمارے دیہات کا حال خدا جانے۔ اتنی خبر ہے کہ لوگ رات کو مویشیوں کی حفاظت کے لیے باری باری جاگ کر پہرہ دیتے ہیں ورنہ چوروں سے مویشی کون بچا سکتا ہے۔ مویشیوں نے دن رات کا زیادہ حصہ گھر سے باہر گزارنا ہوتا ہے اور پیٹ بھرنا ہوتا ہے انھیں ہر وقت باندھ کر کون رکھ سکتا ہے سوائے گھر کے کسی ایک آدھ پسندیدہ قیمتی مویشی کے۔ گاؤں کی زندگی میں انسان اور مویشی ایک ساتھ رہتے ہیں۔ مویشی ایک معاشی ضرورت بھی ہوتے ہیں اور شوق بھی اور اس کے ساتھ دن رات کی رفاقت بھی اس لیے مویشی کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت دیہی اور زرعی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے جس کے بغیر کوئی کاشتکار زندہ نہیں رہ سکتا۔

لاہور جیسے مرکزی شہر میں بھی چوری ڈاکے کی مسلسل بڑھتی ہوئی وارداتوں سے پریشان ہو کر میں اپنے گاؤں کی طرف نکل گیا تو وہاں سے مویشیوں کی چوری کی خبر بھی وصول ہوئیں۔ ایک مدت سے شہری زندگی نے مویشیوں کی رفاقت کی لذت سے دور کر دیا ہے۔ ورنہ ایک خوبصورت جانور کسی کاشتکار کی دن بھر کی تکان اتار دیتا ہے ناچتا کھاتا اچھلتا ہوا گائے کا بچھڑا یا گھوڑی کا بچھڑا وہ نعمتیں ہیں جو قدرت تفریح کے لیے اپنے غریب انسانوں کو عطا کرتی ہے اور ان کی زندگی کی کلفتیں دور کر دیتی ہے ورنہ ایک کسان کاشتکار کی مشکل زندگی کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔

میں ایک پہاڑی گاؤں کا باشندہ ہوں اور جب بھی گاؤں میں ہوتا ہوں تو صبح سویرے نماز فجر کے بعد کاشتکاروں کی آواز سنتا ہوں جو اپنے ڈیرے سے مویشیوں کو کھول کر انھیں ہانکتے ہوئے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ کسی تالاب سے پانی پیتے ہیں اور پہاڑوں کی گھاس سے پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھی مویشیوں میں بکریوں کے وہ ریوڑ بھی ہوتے ہیں۔ قصائی جن میں سے کوئی بکرا پکڑ لاتا ہے اور اسے صبح صبح گوشت کے ٹکڑوں میں فروخت کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اتنا صحت مند اور تازہ گوشت شاید ہی کہیں میسر ہو۔ نقد قیمت اپنی جگہ مگر لذت کام و دہن کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں جب لاہور میں کھوتے اور حرام گوشت کا بہت چرچا تھا تو گاؤں سے پیغام ملا کہ کوئی سیدھا لاہور آتا جاتا ملتا ہے تو حلال گوشت بھجواتے ہیں۔ یہ وقت بھی آنا تھا کہ پاکستان جیسے پیدائشی مسلمان ملک میں حلال گوشت ایک تحفہ بن جائے۔ دلی میں ایک دفعہ میں اپنے آنجہانی دوست راجندر سپرین کے ہمراہ بازار میں تھا کہ اس نے گوشت خریدا اور میری طرف دیکھ کر کہا کہ دلی کا گوشت ہمیشہ حلال ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے قصاب مسلمان ہیں۔ اس لیے یہ پکے گا ور تم بے فکر ہو کر ہمارے ساتھ کھاؤ گے۔ ہم ہندو بھی ہفتے میں دو ایک بار گوشت سے شوق کرتے ہیں۔ ایک بار ہندوستان سے ہمارے صحافی دوست لاہور آئے تو ہوٹل میں کھانے کا آرڈر دیتے ہوئے ہندو دوستوں کی وجہ سے دال سبزی وغیرہ لانے کو کہا اس پر ان سب نے بیک زبان احتجاج کیا کہ ہندوستان میں بھی دال سبزی اور یہاں بھی وہی کچھ۔ بالکل نہیں گوشت کی تمام ڈشوں کا آرڈر دیا گیا۔

اب جب یہ باتیں یاد آتی ہیں اور لاہور جیسے شہر میں حرام گوشت اور گدھے کے گوشت کی خبر ملتی ہے تو اپنی بدقسمتی پر حیرت ہوتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی کس کے آگے شکایت کریں۔

اور یہ شہر لاہور محمدؐ کے ماننے والوں کا شہر ہے جہاں کا ہر ٹکڑا آسمان برابر ہے۔

مقبول خبریں