ایک غیر معمولی خوشخبری

میاں صاحب محترم نے اقتدار اور اقدار کی بات کی ہے۔ اقتدار ایک بے رحم عمل ہوا کرتا ہے


Abdul Qadir Hassan November 28, 2015
[email protected]

لاہور: محترم وزیراعظم میاں نواز شریف کے حلقہ اقتدار اور ارادت میں نہایت نکتہ آفریں قسم کے لوگوں کی بھی کمی نہیں جس نے انھیں اقتدار سے ملتا جلتا اقدار کا بامعنی نعرہ دیا ہے اس طرح اس نے اپنی خوش گفتاری کی مثال پیش کی ہے۔ یہ ہمارے پہلے حکمران ہیں جو اقتدار کے ساتھ اقدار کی بات بھی کر رہے ہیں۔ اقتدار کا لفظ تو بہت ہی قابل فہم ہے لیکن اقدار کا لفظ ذرا مشکل ہے کیونکہ یہ نہ کبھی کسی حکمران کی زبان پر آیا نہ عمل میں۔ میاں صاحب نے یہ حیرت انگیز اور تعجب انگیز خبر بھی دی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں سے کمیشن اور کک بیکس کا بھی خاتمہ کر دیا گیا ہے یعنی رشوت کا۔ کمیشن نہ لینے کی وجہ سے بیرونی حکومتیں بھی ہم پر مہربان ہو گئی ہیں اور کمیشن نہ لینے کی وجہ سے جو چیز ہمیں ایک سو روپے کی ملتی تھی وہ اب صرف ساٹھ روپے میں مل رہی ہے۔ اس طرح عملاً صرف کسی ایک منصوبے میں 33 ارب روپے تک بچانے کی پاکستان میں مثال نہیں ملتی۔

یہ سب بظاہر ناقابل یقین ہے لیکن وزیراعظم نے صرف ایک تقریر نہیں کی اور کوئی بیان جاری نہیں کیا بلکہ اپنی زبان سے ایک بہت بڑا انکشاف کیا ہے کہ ہمارے لوگ بیرون ملک سے کچھ منگوانے پر کتنا کمیشن لیا اور دیا کرتے تھے یعنی ایک سو کی جگہ اب ساٹھ روپے کے کمیشن میں اشیاء منگوائی جا رہی ہیں۔ میاں صاحب نے یہ حیران کن انکشاف بھی کیا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں پر کمیشن اور کک بیکس ختم کر دیا ہے۔ یعنی اتنی اونچی سطح پر اگر رشوت ختم کر دی گئی ہے تو اس کا اثر لازماً نچلی سطح پر بھی پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی رشوت بھی لینا دینا بند کر دیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر یہ اس قوم کی تقدیر بدلنے والی بات ہے۔

ایک ایسی غیر یقینی بات جو پاکستانی بھی سنے گا حیرت زدہ رہ جائے گا اور رشوت کے بغیر کام ہو جانے پر اپنے آپ کو ایک بدلتی اور بدلی ہوئی قوم کا فرد سمجھے گا۔ میرے خیال میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت ستانی ہے جو دوسرے ایسے کئی مسئلوں کو جنم دیتی ہے اور جس دن یہ ختم تو کیا مناسب حد تک کم ہی ہو جائے گی ہماری زندگی بدل جائے گی۔ وزیراعظم نے ہماری انتہائی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اسے سہلایا ہے۔ قوم مشکور ہو گی کہ اس کے بنیادی مسئلے یعنی رشوت پر اس کے سب سے بڑے حاکم نے ہاتھ ڈالا ہے اس لیے اب کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔ بیرونی تجارت میں کمیشن اور کک بیکس کا خاتمہ جہاں ایک غیر معمولی واقعہ ہے وہاں یہ اس ملک کی کاروباری سلامتی بھی ہے۔

میاں صاحب محترم نے اقتدار اور اقدار کی بات کی ہے۔ اقتدار ایک بے رحم عمل ہوا کرتا ہے جو اپنی سلامتی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن صاحبان اقتدار اگر انسانی قدروں اور بہتر روایات کی پاسداری کریں تو بات بالکل بدل جاتی ہے۔ اقدار کو آپ یوں سمجھیں کہ ہماری اچھی معاشرتی روایات کو زندہ اور سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی اور ہمارے ہاں اس گئے گزرے زمانے میں بھی ابھی تک اچھی اقدار اور روایات کسی حد تک موجود ہیں اور ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں انھیں زندہ بھی دیکھتے ہیں۔ یہی روایات جب قومی سطح پر قومی زندگی میں اجاگر ہوں گی تو ظاہر ہے کہ بے اثر نہیں جائیں گی اب تو لوگ بعض اوقات بدقسمتی سے کسی اچھائی سے بھی ڈرتے ہیں کہ بدی اتنی پھیلتی جا رہی ہے کہ اچھائی کرنی ایک آزمائش بن گئی ہے مگر ہماری قوم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اس آزمائش سے گزر رہے ہیں اور اس کے نقصانات بھی برداشت کر رہے ہیں۔ ایسی ہی روایات اور اقدار پر کوئی معاشرہ زندہ رہتا ہے ورنہ یہ نہ ہوں تو ایسے معاشرے اور ملک میں زندگی ایک مسلسل عذاب بن جاتی ہے۔

ہمارا ملک پاکستان پیدائشی طور پر بہت ہی اعلیٰ درجے کی روایات کا امین تھا اس کا قیام بذات خود ایک بڑی نیکی اور اعلیٰ قدر سمجھی گئی تھی اور اسے کبھی مملکت خداداد اور کبھی اسلامی ملک کہا جاتا تھا جو اب آئینی طور پر ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ جدید دور کا ایک اسلامی ملک جو آج کی دنیا میں زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے۔ رشوت مکر و فریب دھوکا دہی اور بدعہدی کا اس ملک میں نام تک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام میں ایسی کسی بدی کی گنجائش نہیں ہے لیکن ہمارا اصل مسئلہ ہمارا معاشرہ اور اس کی روایات نہیں بلکہ ہمارے حکمران ہیں اور ہمارے ہر بگاڑ کی ذمے داری ان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے وہ خود صاف ستھرے نہیں ہوتے بگڑے ہوئے ہوتے ہیں اور انھیں ایک ایسی سوسائٹی درکار ہوتی ہے جو ان کے بگاڑ اور بدی کو برداشت کر سکے ورنہ ان کا اقتدار ہر وقت خطرے میں رہتا ہے اسے ایسے کسی خطرے سے نکالنے کے لیے اس کی پسند اور ضرورت کی سوسائٹی ہونی چاہیے۔

قیام پاکستان اور اس کے قیام کی تحریک کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے کتنے ہی پاکستانی زندہ سلامت ہیں جو اس تحریک کا حصہ تھے۔ یہ تحریک ایک خالصتاً اسلامی تحریک تھی اور اس کے قائدین خلافت راشدہ کے لوگوں کے مداح تھے وہ لوگ جو ابتدائے اسلام میں دنیا کو کسی نئے دین اور نئی زندگی کی تعلیم دے رہے تھے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ خود پاکستانیوں نے جو کر دیا وہ تاریخ کا ایک المیہ ہے۔ بدنصیبی سے اس کے قیام کے ساتھ ہی اس کا بانی اور لیڈر اللہ کو پیارا ہو گیا اور بعد میں ہم نے پاکستان کے ایک فوجی ملازم کو اپنا حکمران پایا۔ اسے شاید فوجی علوم اور طریقوں کا علم تو ہوگا لیکن اس کا کسی ملک کو چلانے اور جہانبانی سے کیا تعلق۔ چنانچہ یہ فوجی طویل عرصہ تک حکومت کرتا رہا اپنے ہی کسی انداز میں جس میں تحریک پاکستان کی جھلک نہیں تھی۔

یوں پاکستان اپنی بنیاد سے اکھڑ گیا اس کی نظریاتی بنیادیں ہل گئیں اور پھر جو بھی آیا وہ ان لرزتی بنیادوں پر حکومت کی عمارت رکھ کر حکمرانی کرتا رہا۔ اس کا ہولناک نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ملک جو برصغیر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز تھا اور جس کی سلامتی میں وہ اپنی نجات سمجھتے تھے وہ اپنے دشمنوں کے ہاتھوں ٹوٹ کر نصف ہو گیا۔ بدقسمتی سے ان دشمنوں میں دوست بھی شامل تھے۔ اس طرح یوں کہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد ختم ہو گیا نصف رہ گیا اور وہ بھی ظاہر ہے کہ سسکتا ہوا ایک کمزور ملک جو دشمنوں سے گھرا ہوا تھا۔ اب تک اس کی یہی حالت ہے لیکن ملک کی اس کمزوری کا ایک ردعمل یہ ہوا کہ اس کے باشندوں نے اپنی سلامتی کا کچھ سامان کر لیا انھوں نے ایٹم بم بنا لیا یہ ایک حیران کن کامیابی تھی جس کے بعد اس ملک کی سلامتی کا ایک طاقت ور پہلو سامنے آ گیا اور یوں کہیں کہ پاکستانی چین کی محفوظ نیند سونے لگے مگر ابھی بہت زیادہ کام باقی ہے۔

مقبول خبریں