کچھ الیکشن کے بارے میں
مجھے یاد ہے کہ ہمارے گاؤں کا ایک تعمیراتی ٹھیکہ دار اس شہر میں منتقل ہو گیا
لاہور:
ایک زمانہ تھا کہ کراچی جماعت اسلامی کا شہر تھا۔ اس وقت اس شہر کے میئر اور منتظم جماعت کے ایک ایسے کارکن تھے جنہوں نے کراچی کو ایک مثالی عوامی یعنی عوام کا پسندیدہ شہر بنا دیا تھا اور اس کا انتظام اس قدر اعلیٰ تھا کہ سیاسی مخالفین حیرت زدہ تھے لیکن کراچی کی یہ سیاسی اسلامیت وقت کے اسلامی مزاج کے حکمران جنرل ضیاء الحق کو نہ پسند تھی، شاید اس لیے بھی اس شہر پر صرف اہل کراچی کا اپنا حکم ہی چلتا تھا، کسی باہر کے حکمران کا نہیں۔ یہ ایک خود مختار شہر تھا جو جدید ترین جمہوری اصولوں پر چلتا تھا، یوں یہ ایک مثالی شہر تھا جو ایک بہت بڑا شہر ہونے کے باوجود ایک عمدہ نظم و ضبط کے تحت زندہ تھا۔
مجھے یاد ہے کہ ہمارے گاؤں کا ایک تعمیراتی ٹھیکہ دار اس شہر میں منتقل ہو گیا اور بعض مشکلات کے باوجود اس نے نقل مکانی سے انکار کر دیا کیونکہ سو فی صد رشوت سے پاک کاروبار صرف اسی شہر میں ممکن تھا جب کہ اس کا کاروبار کسی بھی شہر میں رشوت کے بغیر چل نہیں سکتا تھا۔ جناب صدر ضیاء الحق نے کراچی کے ایک سیاسی لیڈر کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ کراچی کو جماعت سے آزاد کرا دیں۔ ان صاحب نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں ان کا نام نہیں لکھوں گا جب کہ ساری کہانی انھوں نے خود مجھے بتائی تھی، ایک سفر کے دوران جو سندھ کے ایک شہر سے کراچی تک بذریعہ ہوائی جہاز طے ہوا تھا۔
اس کامیاب سیاستدان نے جماعت کا توڑ کراچی کے ان لوگوں سے نکالا جن کی طاقت منتشر تھی۔ ان صاحب نے اس صورت حال کو محسوس کیا اور ایک منصوبے کے تحت اردو زبان بولنے والوں میں سیاسی احساس پیدا کر کے انھیں متحد کیا اور ان کی طاقت سے جماعت اسلامی جو محض نظریات کی طاقت رکھتی تھی اور کسی دوسری طاقت سے محروم تھی اسے ان سے شکست دلا دی۔ یہ شکست کیسے ہوئی یہ ایک الگ کہانی ہے بہر کیف کراچی میں اہل کراچی میں سے ایک نئی تنظیم نے جنم لیا جو آزاد اور کسی کی محتاج نہیں تھی، ہاں اسے حکمران اعلیٰ کی سرپرستی ضرور حاصل تھی لیکن خفیہ انداز میں جماعت کو اتنا کمزور کر دیا گیا کہ وہ زیادہ اور موثر مزاحمت نہ کر سکی اور ایک دوسری طاقت کے لیے میدان خالی کر دیا۔ سرکاری سرپرستی میں دوسری طاقت نے فی الفور یہ خلا پر کر دیا۔
کراچی پر اب جو بھی حکومت ہے وہ جماعت اسلامی کی نہیں ہے کسی دوسرے گروہ کی ہے جو جماعت کا متبادل گروہ سمجھا جاتا ہے۔ کراچی شہر کا یہ نیا طاقت ور گروہ بڑے اطمینان کے ساتھ حکومت کر رہا ہے۔ کراچی کی حکومت اور کراچی پر سیاسی اثر کی تبدیلی کی یہ بہت مختصر سی کہانی ہے کیونکہ میں اس کا شاہد ہوں اور یہ امانت اہل کراچی کو لوٹا دینی ضروری ہے۔ جماعت اسلامی اپنے ممدوح ضیاء الحق کی آمرانہ سازش کی شکار ہو گئی۔
جماعت والوں کو یہ احساس نہ ہو سکا کہ اقتدار کی اپنی ایک الگ ضرورت اور منطق ہوتی ہے اور بقول ایک دانشور سیاسی مفکر کے اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس پر یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ اقتدار کی آنکھوں میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ اگر اقتدار کے سینے میں زندہ دل ہو اور آنکھوں میں شرم و حیا تو اس کی عمر بہت ہی مختصر اور عارضی ہوتی ہے۔ اس لیے اہل اقتدار اپنے اقتدار کے لیے کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرتے، یہ صورت حال ہم مسلسل دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔
بات اتفاق سے جماعت کی بھی شروع ہو گئی۔ جماعت کے اونچے لیڈروں نے حالیہ الیکشن میں اپنے بیٹوں کو دوسری جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑایا لیکن بڑے شرم کی بات ہے کہ جماعت کے یہ دونوں امید وار نہ صرف ہار گئے بلکہ ان کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی۔ ہمارا ووٹر اتنا بے وقوف نہیں کہ وہ کسی جماعت کے دیوالیہ پن کو محسوس نہ کرے اور اس کو سیاسی عزت دینے پر تیار ہو جائے۔
نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ ایک مکمل جماعت جو اپنے نظم و ضبط میں بہت مشہور ہے، حالات سے شکست کھا کر اور گھبرا کر کوئی ایسی حرکت کر جاتی ہے جو اس کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔ حالیہ الیکشن میں جماعت نے اپنی نفی کر کے کسی دوسری جماعت کا سہارا لیا لیکن یہ سہارا گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال نہ سکا اور اس کے چوٹی کے دو لیڈروں کے صاحبزادگان بری طرح ہار گئے۔
جماعت کو اس بات کا اندازہ کب ہو گا کہ کسی الیکشن میں کامیابی اس کی قسمت میں پہلے تھی اور نہ اب ہے اور نہ اس کا کوئی امکان ہے جماعت میں نظریاتی ثقاہت کے باوجود اس میں کوئی ایسا نقص ہے کہ عوام اس کی طرف راغب ہی نہیں ہوتے بلکہ جماعت نے جب بھی عوام کی مدد لینے کی کوشش کی جماعت کو ناکامی کا سامنا ہوا۔ مولانا مودودی کے زمانے میں ایک بار جنرل الیکشن میں جماعت کے امرائے ضلع نے بڑی خوش کن رپورٹیں دیں۔ ان کی روشنی میں جماعت نے متعدد نشستوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سبھی امید وار ہار گئے۔ مولانا نے اپنے امراء کا اجلاس بلایا اور ان سے پوچھا کہ انھوں نے کس حال میں اور کس خیال میں یہ رپورٹیں تیار کی تھیں لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
الیکشن کا ایک الگ مزاج ہوتا ہے اور جو جماعت اس مزاج کو نہ سمجھے اور الیکشن کے لیے ووٹروں کو مطمئن اور خوش نہ کرے اس کی ناکامی میں شک نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت کے ساتھ شروع دن سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور یہ حالات اور ووٹر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی۔ جب تک یہ کیفیت باقی رہے گی جماعت کو کسی الیکشن میں کوئی کامیابی نہیں ہو گی اور جب وہ اپنے بیٹوںکو دوسروں کے ٹکٹ پر الیکشن میں بھیجے گی تو اس کی اپنی اوقات بھی کھل کر سامنے آ جائے گی جس کے بعد اس کے لیے عملاً الیکشن کا میدان ممنوع ہو جائے گا۔