ملک گیر اور بلاامتیاز آپریشن ضروری ہے
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں عسکری ونگز موجود ہیں،
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں عسکری ونگز موجود ہیں، جو مختلف جرائم میں ملوث تھے اور ان کا خاتمہ بھی ضروری تھا، لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگزکا نہ منظم نظریاتی دہشت گردوں سے تعلق تھا نہ وہ اس نیٹ ورک کا حصہ تھے جس کا مقصد اقتدار پر قبضہ حاصل کرنا ہے۔
عسکری ونگز بہرحال کراچی کے لیے خطرہ ثابت ہورہے تھے، سو ان کے خلاف آپریشن بھی ضروری تھا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگزکے خلاف بلاتفریق بلاامتیاز آپریشن کیا جاتا لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کا رخ ایک مخصوص جماعت کی طرف موڑ دیا گیا، جس کے سیکڑوں کارکنوں کوگرفتار کر لیا گیا۔ یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ عام شہری بھی یہ محسوس کرنے لگا کہ آپریشن کا رخ صرف ایک پارٹی کی طرف ہے، اس احساس کی وجہ سے عوام کی ہمدردیاں اس پارٹی کے ساتھ ہوگئیں جو ایک فطری اور منطقی بات تھی۔
اس دوران اس پارٹی کی قیادت کے خلاف بھی اقدامات شروع کردیے گئے، جہاں عمران فاروق قتل کے حوالے سے پیش رفت شروع کی گئی۔ وہیں اس پارٹی کی مرکزی قیادت کے خلاف بھی دہشت گردوں کی سہولت کاری سمیت مختلف الزامات میں ایف آئی آرکی بھرمارکی گئی اور ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے لگے۔
ان یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے اس پارٹی کے لیے کراچی کے عوام میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے اور بلدیاتی انتخابات میں یہ ہمدردی اس پارٹی کی حمایت میں بدل گئی اور یہ پارٹی بھاری اکثریت سے سندھ کے شہری علاقوں میں کلین سوئپ کرگئی۔ بلدیاتی الیکشن میں بھاری کامیابی سے اس پارٹی کو جو عوامی مینڈیٹ ملا وہ اس بات کی دلیل بن گیا کہ اس پارٹی کے خلاف ''ٹارگٹڈ آپریشن'' نامناسب اور رائے عامہ کے خلاف ہے۔ خصوصاً کراچی کے نامزد میئر کے خلاف مقدمات نے عوام میں ناراضگی پیدا کردی جو کسی اعتبار سے بھی اس بامعنی آپریشن کے حق میں نہیں جاتی۔
کراچی جس قسم کے جرائم کا اڈہ بن گیا تھا، ان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سر فہرست تھے۔ یہ جرائم ایک منظم اور منصوبہ بند پروگرام کا حصہ تھے جن کا مقصد پورے ملک میں دہشت اور انارکی پھیلاکر ملک کو غیر مستحکم کرنا اور عوام میں مایوسی پیدا کرنا تھا اور عوام دشمن طاقتیں اپنے مقاصد میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہورہی تھیں، ملک کو غیر مستحکم کرنے والی ان طاقتوں نے اپنے مادی وسائل کے حصول کے لیے کراچی میں بھتہ خوری بڑی بڑی بینک ڈکیتیوں اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم کا سہارا لیا تھا، ان تمام جرائم نے نہ صرف عوام کی جان ومال کو غیر محفوظ بنادیا تھا، بلکہ عوام میں مایوسی بھی پھیل رہی تھی۔
ہماری مسلح افواج کی قیادت نے بڑی دانش مندی سے شمالی وزیرستان میں ایک موثر آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا، یہ آپریشن اس قدر منظم اور منصوبہ بند طریقے سے شروع کیا گیا کہ دہشت گردوں کا شمالی وزیرستان میں رہنا مشکل ہوگیا۔ سو وہ شمالی وزیرستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور بڑی تعداد میں افغانستان فرار ہوگئے ۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں نے پاکستان کے مختلف شہروں کا رخ کیا جن میں کراچی سرفہرست تھا۔
افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی سے کراچی کے مضافات میں آباد ہوگئی تھی، سو شمالی وزیرستان سے بھاگ کر کراچی آنے والوں کو افغان بستیوں میں ضم ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی چونکہ نسلی اعتبار سے یہ گروہ ایک تھے لہٰذا ہماری افغان مہاجرین اور دہشت گردوں میں امتیاز کرنا مشکل تھا لیکن خفیہ اداروں کی نشان دہی سے دہشت گردوں ٹارگٹ کلروں اور ان کے بھائی بندوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن مشکل نہ رہا چونکہ تنہا پولیس ان جرائم سے نمٹنے کی اہل نہ تھی۔
سو صوبہ سندھ اور وفاق کی مرضی سے خصوصی اختیارات کے ساتھ رینجرزکو اس آپریشن کا مرکزی حصہ بنادیا گیا۔اس حکمت عملی کے موثر نتائج سامنے آنے لگے اورکراچی میں مذکورہ جرائم میں قابل ذکرکمی آگئی اور عوام سکھ کا سانس لینے لگے ساتھ ہی ساتھ کراچی کی رونقیں دوبارہ بحال ہونے لگیں اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جرائم رینجرزکی پہلی ترجیح تھے۔
اس دوران ایک اور خصوصی اور امتیازی اقدام یہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو کرپشن کے الزام میں گرفتارکرلیا گیا، کرپشن کے علاوہ ان پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام بھی لگایا گیا اور رات دن انھیں ہتھکڑیاں ڈال کرکورٹ کچہری میں اس طرح گھسیٹا جانے لگا کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات پس منظر میں جانے لگے، ان کے ساتھ ہونے والی قانونی کارروائیاں ان کی مظلومیت بننے لگیں۔
سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگزہوں یا سیاستدانوں کی اربوں کھربوں کی کرپشن اس کے خلاف سخت ترین آپریشن وقت کی ضرورت اور عوام کی خواہش ہے لیکن جب اس کا دائرہ کراچی تک محدود کردیا جاتا ہے تو یہ آپریشن امتیازی محسوس ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے آپریشن متنازعہ ہوجاتا ہے اور اب یہی ہو رہا ہے۔
یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کراچی کی کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگز ہیں، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان تمام جماعتوں کے خلاف بلاتفریق سخت آپریشن کیا جاتا جن کے عسکری ونگز ہیں لیکن ایسا بوجوہ نہ ہوا جس سے یہ تصورمضبوط ہو رہا ہے کہ یہ آپریشن اب ٹارگٹڈ ہوگیا ہے۔
اس طرح کرپشن اور سہولت کاری کو بھی کراچی تک محدود کرکے اس آپریشن کو متنازعہ بنادیا گیا ہے اور لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا دہشت گردی، دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری اورکرپشن کراچی تک ہی محدود ہے کیا پنجاب، پختونخوا، بلوچستان میں یہ بیماری نہیں ہے؟ پاکستان کا ہر شہر، ہر صوبہ کراچی سے زیادہ ان بیماریوں میں لت پت ہے، اربوں کھربوں کی کرپشن پنجاب میں بھی ہو رہی ہے پنجاب دہشت گردوں کا دوسرا بڑا ٹھکانہ بنا ہوا ہے۔
پنجاب اور دوسرے شہروں میں ایسی جماعتیں موجود ہیں جو نہ صرف دہشت گردوں کی سہولت کار ہیں بلکہ ان کی نظریاتی ہمدم بھی ہیں اور ان کی پرورش بھی کر رہی ہیں، اگر یہ سچ ہے تو پھر صرف کراچی ہی کو اولین ترجیح کیوں بتایا جا رہا ہے۔ یہ وہ سوال ہیں جو عوام اور خواص کے ذہنوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں جو آپریشن کی راہ میں مشکلات پیدا کرسکتے ہیں اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ملک و قوم کا وہ اہم مقصد یعنی دہشت گردی سے نجات شاید پورا نہ ہوسکے۔ آپریشن اور سخت آپریشن وقت کی ضرورت ہے لیکن آپریشن بلاامتیاز ہو۔