الحمد للہ بارش

بارانی علاقے یعنی سراسر بارش کی محتاج زمینوں پر قحط کی صورت طاری رہی۔


Abdul Qadir Hassan January 16, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: بارانی علاقے یعنی سراسر بارش کی محتاج زمینوں پر قحط کی صورت طاری رہی۔ اس کا آسان زبان میں مطلب یہ تھا کہ اگر بارش نہ ہوئی تو گندم کی فصل نہیں ہو گی اور مجھے دو تین برس پہلے کا وہ سال یاد آ جاتا جب اسی قحط کی وجہ سے زمین میں گندم پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ فصل کو پانی نہیں ملا تھا اور کھانے کے لیے گندم بازار سے خریدی گئی تھی سر شرم سے جھک گیا کہ اچھی خاصی زمینوں کے باوجود کھانے کے لیے گندم بازار سے خریدنی پڑی۔ بازار سے خریدی ہوئی گندم کی روٹی حلق سے اترتی نہیں تھی حالانکہ یہ بھی گندم ہی تھی بس جس مٹی میں یہ پیدا ہوئی وہ ذرا مختلف تھی۔

سارا پاکستان یہی گندم کھا رہا تھا جو ہمیں کھانی پڑ رہی تھی لیکن ہماری بارانی گندم ذائقے میں ذرا مختلف ہوتی ہے اس لیے ہمیں یہ گندم کسی حد تک بدمزہ لگ رہی تھی لیکن ہمارے کاشتکار جو قحط کے خوف سے مرے جا رہے تھے اپنے سامنے یہ بارش دیکھ کر جی اٹھے انھیں گویا ایک نئی زندگی مل گئی بارش نے فصل کو زندہ کر دیا اور ساتھ ہی کاشتکار کو بھی۔

ہم لوگ جو شہروں میں رہتے ہیں کسی تھوڑی بہت بیماری سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے مثلاً بخار یا تھوڑا بہت نزلہ زکام وغیرہ۔ میں اس وقت چھینکوں سے لڑ رہا ہوں ایک دو دن کی بات ہے سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن قحط کو میں برداشت نہیں کر سکتا اس کا مطلب ہوتا ہے بارش سے محرومی اور بارش سے محرومی کا مطلب ہوتا ہے فصل سے محرومی اور فصل سے اس محرومی کا مطلب جسے میں بیان کر چکا ہوں خوراک سے محرومی ہے۔ یہی روزی روٹی ہے جس کے لیے ہم زندہ ہیں اور دن رات مشقت کرتے ہیں۔

بارش اگر مہربان ہو تو پھر فکر کس بات کی۔ میں نے یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ میں جو قحط سالی سے گھبرایا ہوا تھا گاؤں سے فون آیا ہے کہ بارش برسی ہے اور خوب برسی ہے پیاسی زمین کی کچھ تسلی ہو گئی ہے اور امید بندھ چلی ہے کہ آیندہ سال وہی گندم ملے گی جو ہم شوق سے کھاتے چلے آ رہے ہیں خوش ذائقہ اور زود ہضم۔ یہ سب بارش کی کرمفرمائی ہے جو قریب المرگ فصل پر ہو گئی ہے اور اسے زندہ کر گئی ہے۔ کسی کاشتکار کی دعا قبول ہو گئی ہے۔

میں پردیس میں بیٹھا ہوں اور پیاسی بارانی زمینوں پر برستی ہوئی بارش کا نغمہ سن نہیں پا رہا ہوں جب بارش ہوتی ہے تو پہلے تو زمین کی طرف دیکھیں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ بارش ہوئی ہے اور کہاں ہوئی ہے کیونکہ نہ جانے کب سے بارش کے انتظار میں خشک زمینوں پر شروع بارش کے قطرے کہیں گم ہو جاتے ہیں زمین کے خشک ہونٹ تر نہیں ہو پاتے لیکن قدرت مہربان ہو اور بارش کچھ وقت برستی رہے تو یہی خشک زمین اپنے کاشتکار کے قدم بھی برداشت نہیں کرتی یہ قدم گیلی اور سیراب زمین میں دھنس جاتے ہیں اور قدموں کو جوتوں سمیت زمین سے نکالنا آسان نہیں ہوتا اگر جوتے بارش زدہ زمین سے بخیریت برآمد ہو جائیں تو وہ فوری طور پر پہننے کے قابل نہیں ہوتے انھیں دھونا پڑتا ہے کسی کے کندھے پر کَسّی اور ہاتھوں میں کیچڑ زدہ جوتے دیکھیں تو مطلب ہے کہ یہ کاشتکار اپنی زمینوں سے لوٹ رہا ہے جہاں اس نے بارشی پانی کے راستے بنائے ہیں تا کہ وہ کسی اونچی نیچی ناہموار زمین اور کھیت کو برابر کا سیراب کریں۔

خوش قسمت ہے وہ کاشتکار جس کے کھیت پر اتنا پانی جمع ہو جائے کہ وہ اس کے راستے بناتا رہے۔ یہی کھیت اس کی سال بھر کی روزی روٹی ہے اور گھر میں دانے جمع کر کے وہ اپنا کوئی بدلہ بھی چکا سکتا ہے اور جیل میں چند ماہ بے فکر ہو کر گزار سکتا ہے کیونکہ گھر والوں کے لیے آٹا دانہ موجود ہے وہ بھوکے نہیں مریں گے۔

میں یہ جو بدلے چکانے والی بات کر رہا ہوں تو یہ پرانے زمانوں کی بات ہے اب کاشتکار عقلمند ہو گیا ہے وہ زمین کی آمدنی سے بچوں کی فیس ادا کرتا ہے مقدمہ نہیں لڑتا اور بڑا بچہ جب کالج جانے کے لیے شہر میں چلا جاتا ہے تو اس کے اخراجات ادا کرتا ہے زمین کی آمدنی کے علاوہ جن میں اس کی ماں کے زیور بھی مدد گار ہوتے ہیں۔ اب دیہات میں تعلیم بھی ایک ذریعہ معاش بن گیا ہے اور بچوں کو مزدوری پر نہیں تعلیم کے لیے کسی اسکول کالج میں بھیجا جاتا ہے۔

یہی وہ بچے ہیں جو بڑے ہو کر جب کسی اچھی نوکری میں آ جاتے ہیں تو ان کے دل میں ماں کے زیور چمکتے رہتے ہیں جن کو بیچ کر ان کی تعلیم کے اخراجات پورے کیے گئے تھے۔ اگر کوئی کامیاب زندگی گزارنے والا کہتا ہے کہ اس نے ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی ہے تو اس نے اپنی اعلیٰ تعلیم کسی ٹاٹ پر بیٹھ کر نہیں ماں کے زیور کی دولت پر بیٹھ کر حاصل کی ہے یا اپنی جدی پشتی زمین بیچ کر۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا حصول اپنی قیمت مانگتا ہے اور جن بچوں کے والدین کی زمینوں پر قدرت نے مہربانی کی ہے اور بارش برسا دی ہے تو یہی بارش اور اس سے پیدا ہونے والی فصل ان زیر تعلیم بچوں کی تعلیم کی فیس ہے جس پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے اور جس کے بھروسے پر انھوں نے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خاندان کی گزر بسر کا بندوبست کرنا ہے بارش کی خوشی منانا کئی معنی رکھتا ہے۔ کسی ایک کالم میں ان کا شمار ممکن نہیں۔

مقبول خبریں