سب کر رہے ہیں آہ و بکا
ان دنوں ہمارے ملک کے سب سے بڑے غمخوار ادارے سپریم کورٹ کے جج صاحبان اپنے سرد عدالتی الفاظ میں آہ و بکا کرتے ہیں۔
ISLAMABAD:
میرے ایک بہت ہی پسندیدہ کالم نویس جو اپنا قلمی نام استعمال کرتے ہیں، اس لیے مجھے معلوم نہیں ان کا اسلامی نام کیا ہے جو بھی ہو گا وہ ان کی تحریروں کی طرح خوشگوار اور خوش کن ہو گا۔
بہر کیف بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے تازہ کالم میں وطن عزیز کے حالات حاضرہ پر ایک شعر نقل کیا ہے۔ یہ شعر بظاہر تو عشق و عاشقی کے موضوع کا لگتا ہے لیکن ایک دانشور نے اس کو سنتے ہی کہا کہ یہ آہ و بکا تو ہماری اپنی قومی حالت کے بارے میں ہے لیکن پہلے شعر کہ وہ میری ان ادھر ادھر کی باتوں میں ضایع نہ ہو جائے۔
جھوٹے عاشق ہیں جو آہ و بکا کرتے ہیں
ہم شب ہجر میں اخبار پڑھا کرتے ہیں
اگر آپ اسے نیم مزاحیہ شعر سمجھیں یا اخباروں پر طنز آپ کی مرضی لیکن جب میں نے ایک دانشور کو روک کر کہا، آج کے اخبار میں درج ایک شعر سنتے جائیں تو اس نے مندرجہ بالا شعر سن کر فوراً کہا کہ ہمارے اخبارات کے مندرجات ایک طویل آہ و بکا نہیں تو کیا ہیں۔ حفیظ کا ایک مصرع ہے ؎ سب کر رہے ہیں آہ و بکا' سب مزے میں ہیں۔ دن بھر کی ستائی ہوئی پوری قوم راتوں کو جب اکیلے ہوتی ہے تو اخبار پڑھتی ہے اور اس کی خبروں' کالموں اور تحریروں کو اپنی آہ وبکا سمجھتی ہے۔ اس شعر میں کسی ایسے نکتے کا کھوج لگانا کسی بڑے ہی ذہن رسا کا کام ہے۔ ورنہ میرے جیسے سطحی لوگ تو اسے پڑھ کر محظوظ ہی ہو سکتے ہیں اور بس۔
اور اب جب میں حالات وطن پر غور کرتا ہوں تو تن ہمہ داغدار شد والی کیفیت اور حالت دکھائی دیتی ہے۔ ان دنوں ہمارے ملک کے سب سے بڑے غمخوار ادارے سپریم کورٹ کے جج صاحبان اپنے سرد عدالتی الفاظ میں آہ و بکا کرتے ہیں۔ ان کا شور عوام تک پہنچ رہا ہے اور چونکہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کوئی عدالت حکومتی اقدامات پر تنقید کرے۔ اس لیے ہمارے حکمرانوں کو اس پر تعجب ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ عدلیہ کا کام حکومت چلانا نہیں ہے لیکن ایک سوال اس میں سے پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ملک اور حکومت چلا رہے ہیں کیا ان کا کام ملک چلانا ہے یا کچھ اور۔ ایک سرکاری افسر بدرجہ وزیر نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جناب ملک رحمن صاحب ایک خوشگوار اور ملنسار شخصیت ہیں لیکن افسوس کہ وہ اپنی سرکاری ذمے داری پوری نہیں کر رہے بلکہ یہاں تک کہ بن بلائے عدالت میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کا ججوں کے ساتھ یوں مکالمہ ہوتا ہے۔
جسٹس افتخار: آپ تشریف رکھیں' آپ کیوں آ گئے۔
رحمن ملک: مجھے نہ سنا تو تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی نہ مجھے۔
جسٹس: آپ کو معاف نہیں کرے گی ہمیں کر دے گی' کیا بلوچستان میں آزادانہ گھومنا ممکن ہے۔
رحمن ملک: آپ چلیں' میں گاڑی خود ڈرائیور کروں گا۔
میں نے جس اخبار سے یہ مکالمہ نقل کیا ہے اس میں اس کی تفصیلات بھی درج ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے اس اہم عہدہ دار نے عدالت سے ٹکر لے رکھی ہے۔ جب سے ہماری یہ حکومت آئی ہے تب سے اس نے عدلیہ کو اپنا مخالف سمجھ لیا ہے حالانکہ عدالت کسی کے خلاف یا حق میں نہیں ہوا کرتی اور جو عدالت اس ملک میں ایک نعمت بن کر موجود ہے وہ یہ کہتی ہے کہ اب ملک میں مارشل لاء لگے نہ ایمرجنسی صرف قانون کی حکمرانی چلے گی۔ ہمیں عدلیہ کی آزادی کے ثمرات عوام تک پہنچانا ہوں گے' انصاف دہلیز پر دینا ہو گا' حکومت اگر غیر آئینی کام کرے تو اس کا نوٹس لے سکتے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد بے فکر ہو کر حکمرانوں کو اب صرف الیکشن پر توجہ دینی چاہیے کہ ملک بھر میں ایک عدالت لگنے والی ہے جس میں رحمن ملک اور جسٹس افتخار سب برابر ہیں اور اس کا فیصلہ حتمی ہے۔ ہمارے سیاستدان ڈریں اس عدالت سے کیونکہ یہ بات اب زبان زد عام ہے کہ آیندہ حکومت کسی اور کی ہو گی مگر ملک کے حالات یعنی سیاسی گروہ بندی اور جوڑ توڑ دیکھیں تو لگتا ہے کہ آیندہ حکومت خدا جانے کس کی ہو گی۔ ملک میں کوئی لیڈر ایسا نہیں جسے دوسروں سے زیادہ اقتدار ملنے کی امید ہو۔
ہم نے چند دن ہوئے کہ سنت ابراہیمی میں اپنے سب سے بزرگ پیغمبر کی یاد تازہ کی ہے۔ وہ جب نوجوان تھے تو اپنے بت تراش والد کے کسی بت کو پسند اور لوگ اسے کسی چاند سورج اور ستارے سے موسوم کرتے تو وہ ہر بڑے روشن ستارے کو اپنا رب قرار دے دیتے لیکن وہ غروب ہو جاتا، اس طرح جب سب خدا غروب ہو گئے تو نوجوان ابراہیم نے سب کا انکار کر دیا اور اعلان کیا کہ وہ اس خدا کو مانتے ہیں جو کبھی غروب نہیں ہوتا۔ اس کی سزا میں انھیں آگ تک دیکھنی پڑی تو عرض ہے کہ ہم اپنے زمینی خداؤں کو دیکھ رہے ہیں جو ہر روز ہمارے سامنے طلوع و غروب ہوتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو بہت زیادہ طلوع ہو کر غروب ہی نہیں گم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی موجودہ سیاست کو بقول شاعر کسی طوائف کا مجرا ہی سمجھیں مگر اس کی ویل اسے ووٹ کی صورت میں نہ دیں۔
گزشتہ کالم حضرت سرور شہید کے بارے میں تھا ان کی رباعیات کا پہلی بار منظوم ترجمہ کیا گیا ہے۔ معین زبیری صاحب نے اس آزمائش کو دعوت دی ہے جو رباعی آسان ہو گی اور عوام کے ذہن کے لیے قابل فہم اس کا انتخاب میں جلد ہی پیش کروں گا۔ فی الوقت آپ ماضی کو اور مستقبل کے سیاسی شہیدوں کا شمار کرتے رہیں۔