آلو کی یاد میں

ارادہ تو یہ تھا کہ آج کی بات آلو سے شروع کی جائے جسے پاکستان میں ایک بار پھر سیاسی زندگی نصیب ہوئی ہے


Abdul Qadir Hassan February 02, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: ارادہ تو یہ تھا کہ آج کی بات آلو سے شروع کی جائے جسے پاکستان میں ایک بار پھر سیاسی زندگی نصیب ہوئی ہے۔ ہوا یوں کہ محترم وزیراعظم نے جو آلو کے ماحول بلکہ اس کے اقتدار سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں مزاحاً آلو کا ذکر کرتے ہوئے اس کی قیمت 5روپے کلو بتائی ہے جب کہ سبزی فروش اور آلو خور چیخ اٹھے ہیں کہ بازار میں اس کی اصل قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے اور یہ اس مقبول ترین سبزی کی توہین ہے جو سالن میں گوشت کی مستقل ساتھی ہے لیکن آلو کی ایک سیاسی حیثیت بھی ہے اور اتفاق سے پاک و بھارت دونوں میں اس کا ذکر کسی سیاسی چھیڑ چھاڑ میں آتا رہتا ہے مثلاً بھارت میں ایک لیڈر تھے شری لالو پرساد یادو جن کی وجہ سے سبزی خور بھارتیوں میں آلو مزید مشہور ہو گیا اور اس لیڈر کے کارکنوں نے اس کے اعزاز میں ایک نعرہ بھی ایجاد کیا

جب تک سموسے میں آلو رہے گا
تو نیتا ہمارا بھی لالو رہے گا

اس شاعرانہ نعرے کے جواب میں اس لیڈرکے مخالفوں نے بھی ایک نعرہ ایجاد کیا

نہ خالہ رہے گی نہ خالو رہے گا
نہ آلو رہے گا نہ لالو رہے گا

آلو کی یہ پذیرائی سیاسی دنیا میں عدیم النظیر ہے کیونکہ سیاست میں کبھی کسی سبزی کا یہ اثرورسوخ اور مقبولیت نہیں دیکھی گئی، پاکستان میں جب بھٹو صاحب کی مقبولیت کا آغاز تھا بلکہ یوں کہیں کہ عروج تھا کیونکہ وہ آتے ہی ذرا جلدی ہی عروج پر پہنچ گئے تو ان کے ایک نیک نام سیاسی مخالف جناب محترم ائر مارشل اصغر خان تھے کا وہ صرف مذاق بھی اڑا سکتے تھے۔

ان میں کوئی ایسی خرابی تو تھی نہیں کہ وہ اسے نشانہ بناتے چنانچہ بھٹو صاحب اپنے غیر شائستہ انداز میں ائر مارشل کے سر کی گول مول ساخت کو سامنے رکھ کر انھیں آلو کہا کرتے تھے اور جلسے جلوس میں ائر مارشل کو اسی نام سے یاد کرتے تھے لیکن ان کا یہ طعنہ مقبول نہ ہو سکا کیونکہ ائر مارشل بھٹو کے مقابلے میں اچھے اوصاف کے مالک تھے لیکن وہ اس کے باوجود اپنے اس واحد اپوزیشن لیڈر کو آلو ہی کہتے رہے لیکن یہ زمانہ گزر چکا ہے اور اب کسے یاد ہو گا کہ سیاست کے اس دور میں کیا کچھ ہوتا تھا۔

بھٹو صاحب کے مداحوں میں زیادہ تر وہ محروم لوگ تھے جو دال روٹی کے بھی محتاج تھے اور اپنی محتاجی کا الزام غلط سیاستدانوں کو دیتے تھے جو نام بدل بدل کر ان کے حکمران بنتے رہتے تھے جو بھی آتا ان کے حق میں نعرے لگاتا اور ان کی طاقت سے اپنی سیاست کی سودا بازی کرتا اور باحیثیت لوگوں کو ان محروم لوگوں کے نام پر دھمکیاں دیا کرتا۔ ان میں سب سے زیادہ کامیاب بھٹو صاحب رہے اور اقتدار کی ہر منزل طے کرتے چلے گئے تاآنکہ وہ ملک کے کرتا دھرتا بن گئے۔

اس میں کیا شک ہے کہ ملک کو دولخت کرنے میں ان کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا کہ وہ مجیب الرحمان کی موجودگی میں پورے ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے کہ اکثریت مشرقی پاکستان کی تھی اور اس کے لیڈر شیخ مجیب الرحمان نے جو عوام کی اکثریت کی تائید سے اقتدار میں آ سکتے تھے اور بھٹو صاحب کبھی نہیں۔ اس ملک پر عجب زمانے گزرے ہیں کہ اس کے رہنماؤں اور عوام کے لیڈروں نے ملک کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے توڑ دیا اور اس کے ٹکڑے آپس میں بانٹ دیے۔ انھی ٹکڑوں کے وہ وزیراعظم بن گئے اور پھر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان ٹکڑوں کو مستقل حیثیت دے دی گئی۔

ایک پاکستان تو وہ تھا جو تقسیم ہند کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا اور اس کے عوام اس ملک کو دینی اعتبار سے ایک مقدس ملک سمجھتے تھے لیکن ان کے چالاک لیڈروں نے یہ پاکستان اپنی مرضی کا ایک ملک بنا دیا جس میں اس ملک کے دو حصوں میں تقسیم بھی تھی جس میں ایک کا نام آج بنگلہ دیش ہے اور جسے بھارت کی لیڈر مسز اندرا گاندھی نے اس خطے پر مسلمانوں کی حکومت کا بدلہ اور انتقام کہا تھا کیونکہ ہندو قوم اب تک ایشیائی دنیا کے اس حصے کو ہندو قوم کی ملکیت سمجھتی ہے اور کسی دوسری قوم کو غاصب سمجھتی ہے چنانچہ اس لیے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کو ایک غیر ہندوستانی قوم کی حکومت سمجھا گیا ۔

چنانچہ اندرا نے بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لیا ہے اپنی جگہ وہ درست کہتی تھیں کہ مسلمانوں میں جب مسلمان قوم کا جذبہ کمزور پڑ گیا تو وہ اپنے ازلی مخالف ہندو کا نشانہ بن گیا کیونکہ آج کے مسلمانوں کے اندر وہ جذبہ موجود نہیں تھا جو ان کی اسلامیت کی بقا کے لیے ضروری تھا اور جس کے بغیر ایک مسلمان ملک زندہ نہیں رہ سکتا تھا چنانچہ یہی ہوا کہ جب پاکستان بن گیا تو ہندو سیاستدانوں نے پاکستان کو ختم کرنے کی سازشیں شروع کر دیں اور ہمارے دیکھتے ہی بنگلہ دیش بن گیا ۔

جن کے قیام میں ہندوستان کا کھلا ہاتھ تھا اور اس کی کامیابی کو ہی اندرا نے ہندو کا انتقام کہا تھا اور پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا یوں اس کی طاقت آدھی رہ گئی اور وہ ایک کمزور ملک بن گیا لیکن اس باقی ماندہ پاکستان کے محب وطن سائنسدانوں نے اس ملک کے لیے ایٹم بم بنا لیا اور اسے اسلامی دنیا میں ایک منفرد طاقت کا مرکز بنا دیا۔ آج پاکستان ایک ایسی طاقت ہے کہ اب بھارت اس سے کوئی انتقام نہیں لے سکتا جو ہونا تھا وہ ہو گیا اور پاکستان کے خلاف یہ آخری سازش تھی جسے اس کی کمزوری نے کامیاب کر دیا۔ آج کا پاکستان اب اس جان لیوا کمزوری سے باہر نکل چکا ہے اور اپنی آزادی کے ساتھ اپنی تعمیر میں مصروف ہے ماشاء اللہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں