جائیداد ایک عزت ہے

مجھے اس پاکستانی نے بتایا کہ کتنے ہی پاکستانیوں کی یہاں جائیدادیں ہیں لیکن وہ اکثر سیاست دان ہیں۔


Abdul Qadir Hassan February 18, 2016
[email protected]

MALIKWAL: کچھ دنوں سے میرے مہربان حبیب کی خطرناک علالت کی خبریں آ رہی ہیں۔ انھوں نے برسوں پہلے فلمی دنیا کو تو خیر باد کہہ دیا مگر دوستوں کو یاد رکھا۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ان کی طرف سے ملاقات کا پیغام ملا۔

اس سے قبل تعارف تو تھا لیکن میں صحافی اور وہ اداکار یہ تعارف تعلقات میں اضافے کا باعث نہ بن سکا مگر اب جب اچانک ملاقات کا پیغام ملا جو پہلا پیغام تھا تو میں فوراً ان کے ہاں پہنچا کہ خدا کرے خیریت ہو۔ ایک صحافی اصغر علی کوثر وڑائچ مشترکہ دوست تھے اور اس ذریعہ سے رابطہ آسان ہو گیا تھا۔ ملاقات پر معلوم ہوا کہ حبیب صاحب نے اداکاری یعنی فلمی دنیا چھوڑ کر کاروباری طرز پر ایک رہائشی کالونی شروع کر رکھی ہے اور وہ مجھے اس میں سے ایک پلاٹ دینا چاہتے ہیں۔

جب میں نے عرض کیا کہ میرے پاس نقد رقم ہے ہی نہیں، میں کوئی پلاٹ کیسے خرید سکتا ہوں اور وہ بھی لاہور کے ایک معروف مقام قرطبہ چوک میں۔ جواب میں حبیب صاحب نے کہا کہ کچھ تو ہو گا۔ جب واضح ہو گیا کہ کچھ بھی نہیں تو قرض دینے والے سرکاری اداروں کا پتہ کیا اور ان سے جو قرض مل سکا اس قرض سے حبیب الرحمن صاحب نے مجھے لاہور میں مالک مکان بنا دیا۔

بہاول پور ہاؤس کے سامنے ایک نہایت اعلیٰ تعمیر شدہ فلیٹ نہ صرف میری ملکیت میں آ گیا بلکہ اس میں میری رہائش کا آغاز بھی ہو گیا۔ اس چھوٹے سے فلیٹ میں قومی سطح کے لیڈروں کی باہمی ملاقاتیں بھی ہوتیں اور اسی فلیٹ کے نام نہاد ڈرائنگ روم میں برادرم ملک معراج خالد' میاں احسان الحق اور دوچار دوسرے لیڈروں نے ایم آر ڈی جیسی ملک گیر سیاسی تنظیم کی بنیاد بھی رکھی اور ساتھ ہی سی آئی ڈی کے مستقل پہرے کی بنیاد بھی رکھ دی۔ میں جب اپنی پرانی مرسڈیز میں کھڑ کھڑ کرتا ہوا اس گھر میں آتا جاتا تو سی آئی ڈی والے بہت ناک بھوں چڑھاتے کہ اس کے لیے ہمیں پہرے پر لگا دیا ہے۔

ایک بار جب میں گھر سے باہر جا رہا تھا تو میں نے خود سنا کہ ایک مخبر دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ یار یہ ہے وہ جس کی نگرانی کے لیے ہمیں اس پہرے پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ بہرکیف میاں حبیب الرحمن نے مجھے صاحب خانہ بنا کر سی آئی ڈی کی فہرست میں بھی میرا نام لکھوا دیا اور لاہور شہر کے ایک اہم مقام پر مجھے گھر بھی دے دیا اور میری خط و کتابت کے لیے ایک پتہ بھی اور یوں میں لاہور کا ایک مستقل شہری بن گیا۔

ایک پتہ میرے گاؤں کا دوسرا لاہور کا اور تیسرا لندن کا بھی تھا لیکن وہ میں نے گھبرا کر بیچ دیا۔ لندن میں چند معقول پاکستانی پراپرٹی کا کام کرتے تھے ان کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے لندن کی پراپرٹی کی طرف مائل کر دیا اور حکومت سے قرض بھی لے دیا۔ ایک دن میں ان کے دفتر میں ملنے گیا تو انھوں نے مجھے ایک کاغذ دیا جس پر میرے مرحوم دوست رزاق کے دستخط بھی تھے اور پھر وہ جگہ دکھائی جو اب میری ملکیت تھی۔

مجھے اس پاکستانی نے بتایا کہ کتنے ہی پاکستانیوں کی یہاں جائیدادیں ہیں لیکن وہ اکثر سیاست دان ہیں۔ آپ جیسے لوگ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے ہم نے دفتر میں بیٹھے بیٹھے فیصلہ کیا کہ آپ کو بھی یہاں ایک مکان لے دیں، ساری کارروائی ہم نے کر دی آپ کے دستخطوں سمیت اور اب انکار کی گنجائش نہیں رہی، اپنا گھر سنبھالیے اور پاکستان میں جا کر اعلان کر دیجیے کہ آپ لندن میں بھی ایک مکان رکھتے ہیں اور فٹ پاتھیے قسم کے اخبار نویس نہیں ہیں۔

میں نے شکریے کے ساتھ عرض کیا کہ فٹ پاتھیا تو میں پہلے بھی نہیں تھا مگر آپ کا شکریہ کہ اب لندن میں بھی گھر رکھتا ہوں اور گویا یہ گھر آپ کا ہے مگر آپ نے مجھے دے دیا ہے اور یوں میں اب لندن میں بھی ایک گھر کا مالک ہوں مگر اس کی دیکھ بھال میرے بس کا کام نہیں ہے کسی سے کراؤں تو بھاری اخراجات کون دے اورمیں خود تو لندن آنے جانے سے رہا، اس لیے آپ میرا بے حد شکریہ قبول کیجیے اور اسے ٹھکانے لگا دیجیے۔

رات کو رزاق بھائی کا فون آیا کہ اسے بیچنا ہرگز نہیں لیکن مجھے معلوم تھا کہ ان کے پاس بھی وقت نہیں ہے چنانچہ ایک لمبی کہانی ہے کہ یہ مکان بیچ دیا گیا اور میں پھر سے خالص پاکستانی بن گیا جس کا پاکستان سے باہر کچھ بھی نہیں ہے اور اس پر اللہ کا شکر ہے کہ میں کسی متوقع فتنے سے بچ گیا۔ قرآن پاک میں ہے کہ 'تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے' ایک پاکستانی کے لیے لندن میں مکان ہونا ایک دولت نہیں تو کیا ہے بہر کیف میں اس متوقع فتنے سے بچ گیا۔

مجھے یہ سب باتیں اپنے مہربان دوست حبیب کی وجہ سے یاد آئیں خدا اس شخص کو جلد صحت عطا کرے۔ فلمی دنیا میں زندگی اور جوانی بسر کرنے کے باوجود وہ فلمی عادات سے محفوظ رہا اور اس کے اندر خاندانی شرافت زندہ رہی۔ ایک ایسے پیشے سے تعلق ہونے کی وجہ سے جہاں بڑے لوگوں سے میل جول ایک مجبوری ہوتا ہے مجھے ایسے لوگ کم ہی ملے جو کسی گاؤں سے لاہور آئے ہوں اور گاؤں کی سادہ عادات بھی سنبھال کر رکھتے ہوں اور عزت اور وقار کے ساتھ جینا چاہتے ہوں۔

میں نے کبھی کسی کو نہیں بتایا کہ میں لندن میں بھی کوئی پراپرٹی رکھتا ہوں اور اب جب نہیں ہے تو خوش ہوں کہ جو کچھ پاکستان میں خدا نے دے دیا ہے وہی میرے لیے ضرورت سے زیادہ ہے اور جہاں تک اولاد کا تعلق ہے تو وہ اپنی جدی پشتی جائیداد سنبھال لے تو اس پر بہت ہے۔

میں نے اس میں سے ایک انچ بھی ضایع نہیں کیا ہے اور فروخت کرنا تو ایک بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے۔ میں ان دنوں پی آئی اے کی ملکیت ہوٹلوں کی فروخت کی باتیں سن رہا ہوں جن لوگوں نے نیو یارک اور لندن میں اپنی اس پاکستانی کمپنی کی ملکیت ہوٹل دیکھے ہیں وہ ان کو فروخت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ عقلمند لوگوں نے یہ جائیدادیں خریدی تھیں، نیو یارک کا روز ویلیٹ ہوٹل اقوام متحدہ کی عمارت سے چند قدم کے فاصلے پر ہے اور ایک اچھی تعمیر ہے جس کے کمرے آرام دہ ہیں اور بہت ہیں۔

ایسی کسی جائیداد کو فروخت کرنے کی ہمت بہت کم لوگوں میں ہو سکتی ہے سوائے ان کے جو اس کو بیچ کر کسی نہ کسی بہانے کھا جانا چاہتے ہوں۔ لالچی لوگ اور پاکستان سے کوئی خاص محبت نہ رکھنے والے ہی پی آئی اے کی جائیدادوں کو بیچ سکتے ہیں۔

مقبول خبریں