رشوت والا معصوم نہیں ہوتا
ایسا آج تک نہیں ہوا کھلا یا خفیہ حکم دیا جاتا ہے اور ایک وزیر اعظم کا یہی مقام ہے
جو کچھ ہوا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ یعنی ادھر کچھ وقت سے جب پانی سر سے گزرنے لگا اور 'کرپشن' قومی موضوع بن گئی تو ہمارے بڑے گھبرا گئے کہ یہ تو ان کے گھر کے راستے کی نشانیاں بتائی جا رہی ہیں کیونکہ جب بھی کوئی برائی اوپر کے طبقے میں عام ہو جاتی ہے تو وہ وہاں رکتی نہیں ہے نیچے کی طرف بہنے لگتی ہے اور پھر ہر طرف پھیل جاتی ہے۔
ہمارے بڑوں میں حرام خوری اور کرپشن اتنی عام ہو گئی کہ عام پاکستانی ان کی اس جرات پر حیران رہ گیا کہ یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ جس ملک نے ان کو پال پوس کر جوان کیا ہے اور پھر ان کے سامنے حصول زر کے راستے کھول دیے ہیں وہ اس قدر بے انصاف بے مہر اور خود غرض نکلے ہیں کہ ان راستوں کو صرف اپنی ذات کے لیے مخصوص کر لیا ہے لیکن ان کے ساتھ والے غربت کے دروازے عام آدمی کے لیے کھول دیے ہیں۔
ان اونچے لوگوں کی لوٹ مار اس قدر بڑھ گئی کہ وزیر اعظم کو بذات خود مداخلت کرنی پڑی اور انھوں نے ایک بیان جاری کیا کہ نیب اپنی سرگرمیاں دیکھ بھال کر کرے اور معصوم لوگوں کو تنگ نہ کرے۔ سوال یہ ہے کہ نیب ہو یا کوئی اور سرکاری ادارہ یہ سب جناب وزیر اعظم کے ماتحت ہیں اور ان سب پر وزیر اعظم کا حکم چلتا ہے پھر وہ اپنے محکوموں سے درخواست اور اپیل کیوں کر رہے ہیں حکم کیوں جاری نہیں کرتے علاوہ ازیں اور بھی کئی واقعات حیران کن ہوتے ہیں۔
مثلاً پنجاب میں کرپشن کا کیا حال ہے۔ حیرت ہے کہ نیب کے چیئرمین نے اس بارے میں وزیر اعظم کو بریفنگ دینے سے معذرت نہیں انکار کر دیا ہے۔ حکومت نے کرپشن ختم کرنے کے لیے ادارے تو بنا دیے ہیں لیکن جب ان اداروں نے کام شروع کیا ہے اور جہاں کرپشن کے مرکز ہیں وہاں ان پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا ہے تو پوری حکومت چیخ اٹھی ہے۔
سچ ہے کہ چور کے پاؤں نہیں ہوتے۔ یہ بڑے لوگ تھانے کے حوالدار کی مار بھی برداشت نہیں کر سکتے اور ان کی کرپشن صرف اس صورت میں ان کو بچا سکتی ہے جب اس کا مناسب حصہ واپس کر دیا جائے یعنی کسی دوسرے کو پہنچا دیا جائے۔ میں کسی ایسے باخبر آدمی کی تلاش میں ہوں جو مجھے یہ بتا سکے کہ وزیر اعظم نے کیوں اپنے عہدے کے اونچے مقام سے ہٹ کر اپنے ایک ماتحت ادارے کو ہاتھ نرم رکھنے کی ہدایت کی ہے یا یوں کہیں کہ اپیل کی ہے۔
ایسا آج تک نہیں ہوا کھلا یا خفیہ حکم دیا جاتا ہے اور ایک وزیر اعظم کا یہی مقام ہے۔ کسی جمہوری حکومت میں منتخب وزیر اعظم سب سے بڑا اور سب سے زیادہ با اختیار ہوتا ہے وہ ضرورت پڑنے پر کسی مصلحت پر نرمی اور نیکی کی تلقین کرتا ہے اور ناانصافی سے بچنے کی بات کہتا ہے لیکن اگر کوئی کسی تھانیدار سے کہے کہ وہ اپنا ہاتھ نرم رکھے 'معصوم' لوگوں کو تنگ نہ کرے اور ان معصوم لوگوں کی عزت کا لحاظ کرے تو اس حکم کے بعد وہ تھانیدار کچھ بھی کرے گا تھانیداری نہیں کرے گا اور اگر تھانیداری نہیں کرے گا تو اس کے حلقے میں کرپشن بھی کم نہیں ہو گی۔ ہمارے معاشرے میں خوف خدا نہیں خوف پولیس پایا جاتا ہے۔ ڈنڈا سب سے نزدیک ہوتا ہے اور ہم اسے ہی تسلیم کرتے ہیں۔
کرپشن یعنی رشوت ستانی ایک غلط کام ہے اور اس کی غلطی ہر انسان جانتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ رشوت ایک ناجائز فعل ہے اور اس کی ایک سزا ہے اب سارا جھگڑا اسی سزا کا ہے۔ جناب وزیر اعظم اس سزا کو نرم رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں اب جب انتہائی اعلیٰ سطح سے کرپشن کی سزا میں نرمی کی تلقین کی جائے تو پھر یہ ختم کیسے ہو گی۔
ملک بھر کے سیاستدانوں نے بیک زبان کہا ہے کہ حکمران اگر اداروں کی سرپرستی کے بجائے ان کو دھمکیاں دیں گے تو شفاف احتساب کیسے ہو گا اور اگر ان اداروں کو ہدایت کی جائے کہ وہ معصوم لوگوں کو تنگ نہ کریں تو پھر کیا ہو گا۔ ہمارے ہاں تو ہر کرپٹ معصوم اور شریف ہی ہوتا ہے۔ رشوت ستانی اور قانون شکنی کو روکنے کا جو طریق کار مدتوں سے رائج ہے اور جب بھی اس پر دیانت داری اور بے خوفی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ حیران کن ہوتا ہے کیونکہ جیسا کہ عرض کیا ہے چور میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ کسی احتساب کے ادارے کا مقابلہ کر سکے۔ ہر کرپٹ چور ہوتا ہے جو صرف اوپر کی سرپرستی میں ہی زندہ رہ سکتا ہے۔
نیب کے چیئرمین نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ کرپشن تمام برائیوں کی جڑ ہے وہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے جو کیس ان کے ہاں چل رہے ہیں وہ کسی سفارش پر ختم نہیں ہوں گے۔ اس وقت تین وزراء، نو اعلیٰ افسروں اور دوسرے 44 لوگوں کے کیس زیر تفتیش ہیں اگر ہم مجرموں کے خلاف کارروائی میں ڈٹے رہے تو انشاء اللہ کرپشن میں بہت کمی آئے گی جو تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
پاکستان کی جدید تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ کرپشن کے خلاف حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اگرچہ بڑے لوگ حکمرانوں کے طبقے میں سے ہیں لیکن اب بات اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان کی حمایت کرنی بہت مشکل ہو چکی ہے اور وہ نیب کے شکنجے میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان بڑے کاروباری لوگوں کی وجہ سے وزیر اعظم نے نرمی کا رویہ اختیار کر لیا ہے۔
سچ بات وہی ہے کہ تاجر کو اقتدار سے دور رکھو ورنہ وہ ہر بات کا سودا کر لے گا۔ یہ ہمارے دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے جس پر صدیاں گزر گئیں مگر اس میں کسی دانشور نے ترمیم نہیں کی بدقسمتی سے ہم نے اس تجربے پر عمل نہیں کیا اور اس کا نتیجہ اب بھگتنا شروع کیا ہے جو ہماری برداشت سے باہر ہو گا ہمارا کمزور ملک ایسی عیاشی نہیں کر سکتا۔ رشوت کا زہر ہم نہیں کھا سکتے اور کرپشن ہماری قومی برداشت سے باہر ہے۔