خاتمہ نہیں اصلاح

ہماری خوش نصیب حکومت کے پاس ایسے دانشمند مشیروں کی کمی نہیں


Abdul Qadir Hassan February 23, 2016
[email protected]

ہماری خوش نصیب حکومت کے پاس ایسے دانشمند مشیروں کی کمی نہیں جو ان کی پریشانیوں بلکہ انتظامی نالائقیوں کا حتمی علاج رکھتے ہیں اور حکمرانوں کی یہ خوش نصیبی ہے کہ وہ ان کے مشوروں پر پوری طرح عمل کرتے ہیں جو بہت کم ہوا کرتا ہے بلکہ کچھ آگے ہی نکل جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی حکومتی مشکلات کا حل نکل آتا ہے۔

مثلاً گزشتہ دنوں ہماری حکومت ہڑتالوں کی وجہ سے خاصی پریشان رہی اور بعض ایسے محکموں کے کارکنوں نے بھی ہڑتال کر دی جو کسی بھی حکومت کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی مثلاً ہماری واحد کامیاب ہوائی کمپنی پی آئی اے جس کا ایک زمانے میں دنیا بھر میں بڑا نام تھا۔ نہ صرف یہ خود ایک کامیاب کمپنی تھی بلکہ اس نے کئی ملکوں کو کامیاب کمپنیاں بھی بنا کر دی تھیں۔

یوں یہ ایک 'ہوا ساز' کمپنی بھی بن گئی تھی۔ 'باکمال لوگ لاجواب پرواز' اس کا نعرہ تھا اور ہم پاکستانی اس پر فخر کرتے تھے اور اس پر بجا طور پر نازاں تھے۔ لیکن ہمارے تجارت پیشہ حکمرانوں نے اس کامیاب قومی کمپنی کو بھی نجکاری کے لیے اپنی دکان پر سجا دیا اور اس پر برائے فروخت کا لیبل لگا دیا۔ بتایا گیا کہ یہ کمپنی کئی خرابیوں کا شکار ہو چکی ہے اور اب اس کو بیچ دینا ہی اس کا بہتر حل ہے۔

کئی ماہرین نے شور مچایا کہ کمپنی کی اصلاح کی جائے اس کی خرابیوں کو دور کیا جائے خود اس کمپنی کے ماہرین کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے گھر کو درست کر لیں اور اسے پھر سے 'پی آئی اے' بنا دیں یعنی باکمال لوگوں کی لاجواب پرواز' لیکن ذہنوں پر تجارت سوار تھی اور اس کے لیے پہلے اس ادارے کی نجکاری کرنی تھی لیکن اس کے ملازمین نے ہڑتال کر دی اور ہماری فضائیں دنیا کی جدید ترین فضائی سروس سے محروم ہو گی۔ ہوائی اڈے مسافروں سے بھر گئے اور ہم اس ذریعہ سفر سے محروم ہو گئے ۔

جس کے بغیر ہم گویا دنیا سے کٹ گئے اور ہمارے عالمی رابطے ٹوٹ گئے اگرچہ بار بار اعلان ہوا کہ نجکاری نہیں ہو گی لیکن پھر بھی اس نامور ادارے کے کارکن مطمئن نہ ہوئے اور خود حکومت بھی اس قدر بددل ہو گئی کہ پی آئی اے اس کا دل بھر گیا اور اس نے اس کا ایک ایسا متبادل بنانا شروع کر دیا جس میں ہڑتالی مزاج والے کارکن شامل نہ ہوں چنانچہ اطلاع ملی کہ حکومت نے پی آئی اے کی متبادل کمپنی 'پاکستان ایرویز لمیٹڈ' بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ اس کا نام رجسٹر بھی کرا لیا ہے۔

ابتدائی طور پر جو اطلاعات ملیں ان کے مطابق اس کا صدر دفتر کراچی میں ہو گا زیادہ تر مقامی پروازیں ہوں گی سیاسی مداخلت نہیں ہو گی۔ نئے روٹ بھی نئی ایئر لائن کو ہی ملیں گے اس کا عملہ بھی نیا ہو گا۔ اس نئی ایئر لائن کے قیام کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ حال ہی میں پی آئی اے کے ملازمین نے جو ہڑتال کی تھی حکومت اس سے تنگ آ گئی تھی جس کے نتیجے میں یہ نئی ائر لائن بنائی جا رہی ہے جو ہڑتالی مزاج والے ملازمین سے محفوظ ہو گی اور ادھر پی آئی اے میں نئی بھرتیاں نہیں ہوں گی۔

کسی ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان کے بغیر ہم کسی ائر لائن کا تجربہ کرنے چلے ہیں خدا خیر کرے کیونکہ اس نئے ادارے کے لیے ہماری نیت صاف نہیں ہے اور ہمارے پاس وہ بڑے لوگ بھی نہیں ہیں جنہوں نے پی آئی اے کو ایک خاص کردار دیا تھا اور اسے ایک مثالی ادارہ بنا دیا تھا۔ ایک ایسا ادارہ جو دنیا کی نامور ہوائی کمپنیوں کی صف میں کھڑا ہو گیا تھا اور اس کی کارکردگی پر دنیا بھر میں رشک کیا جاتا تھا لیکن اب تو اس پی آئی اے کا ماتم ہے۔

جس کے لیے کوئی دعائے خیر پر بھی تیار نہیں ہے لیکن نیا ادارہ کیسا ہو گا اس کا ابھی انتظار کرنا پڑے گا مگر ایک تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی بڑا ادارہ تسلی بخش کارکردگی نہ دکھائے تو اس کی اصلاح کے بجائے اس کو ختم ہی کر دیا جائے۔ یہ ایک انوکھی منطق ہے اور جن لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات موجود ہے ان سے کسی نئے ادارے کی کامیابی کی توقع ایک خوش فہمی ہو گی جو لوگ چلے چلائے ادارے کی اصلاح نہیں کر سکتے وہ کوئی کامیاب نیا ادارہ کیسے بنائیں گے۔

اگر کسی ادار ے کی بقا کی شرط یہ ہے کہ وہ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہو تو پھر حکومت کو اپنی حکومت کے ادارے پر غور کرنا ہو گا کہ جس کی حالت تو بے چاری پی آئی اے سے بھی بدتر ہے اور عوام چیخ رہے ہیں کہ انھیں ایسی حکومت سے کب نجات ملے گی جس میں نہ بجلی ہے نہ گیس ہے نہ پینے کا صاف پانی اور امن و امان تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ قتل اور ڈاکے ایک معمول بن گئے ہیں اور کسی کا دن خیریت سے گزر جاتا ہے تو وہ رات کے بخیر گزرنے کی دعا کرتا ہے۔

حکومت کے پاس امن عامہ کی رپورٹ کیا ہے ہمیں معلوم نہیں لیکن ہر روز کے اخبارات جو رپورٹ چھاپتے ہیں وہ سب کے سامنے ہے اور سو فی صد سچی ہوتی ہے۔ یہ دیکھ کر ہول آتا ہے کہ اس قدر بدامنی میں ہم کس طرح دن رات کریں گے اور حکومت اس کا کوئی علاج کیوں نہیں کرتی پرانے زمانے کی بے قائدہ اور ڈسپلن سے محروم حکومتوں کی جگہ جدید طرز کی حکومت بنانے کا مقصد یہ تھا کہ جان و مال کی حفاظت کا کوئی سامان ہو اور انسان کسی قاعدے کے تحت زندگی بسر کرے۔

اگر جان و مال محفوظ نہیں ہے تو پھر آج کے انسانوں کو کسی نئے طرز حکومت کا سوچنا چاہیے۔ کسی ناکام ادارے کو ختم کردینا تو کوئی علاج نہیں ہے علاج تو کسی ناکام ادارے کی اصلاح ہے جو نا ممکن ہر گز نہیں۔ کسی ادارے کو اس کی اصلاح کی کوشش کے بغیر ختم کر دینا تو ایک بڑی ناکامی ہے اور پھر ایسے لوگ کوئی حکومت بھی کیسے چلا سکتے ہیں۔ کیا کوئی حکومت اس کی اصلاح کی کوشش کے بغیر ختم کر دینی چاہیے۔

الیکشن کا طریق کار اس لیے تو ہے کہ حکومتی اداروں میں اصلاح کی جائے نہ کہ ان کو ختم کر دیا جائے۔ الیکشن کے نتیجے میں ختم تو حکومتیں ہوتی ہیں نہ کہ ان کے ادارے جو ایک انسانی ضرورت ہوتے ہیں۔ اس لیے ہماری حکومت اداروں کی اصلاح پر توجہ دے ان کو بند کرنا تو کسی حکومت کے لیے ایک آسان کام ہے اور یہ ایک ناکام طریق کار بھی ہے۔

مقبول خبریں