اخوت سے جہاد تک
خدانخواستہ جنگ ہو تو پھر یہ قوم پوری کی پوری فوج میں ’بھرتی‘ ہو جاتی ہے اس کا ہر کام فوج کے لیے ہوتا ہے
میرے سامنے میرے ایک جانے پہچانے ادارے کا دعوت نامہ پڑا ہے۔ اس فلاحی ادارے کا نام ہے 'اخوت' یہ ادارہ اسلامی مواخات کا فرض ادا کرتا ہے یعنی خلق خدا کی خدمت کرتا ہے اس ادارے نے جو ضرورت مندوں کو امدادی قرض دینے والا ادارہ ہے پہلا قرض اپنے قیام کے سال 2001ء میں ایک بیوہ کو دیا دس ہزار روپے تب سے اب تک یہ ادارہ گیارہ لاکھ سے زائد خاندانوں کی مدد کرنے میں کامیاب ہوا ہے، ان خاندانوں کو اس ادارے نے اکیس ارب روپے قرض کی صورت میں دیے۔
یہ قرض لینے والے ملک کے تیس شہروں میں پھیلے ہوئے تھے جنہوں نے قرض باقاعدہ واپس کر دیا یعنی کوئی 99-87 فی صد واپسی ہوئی۔ وطن عزیز میں چند اور ادارے بھی عوام کی خدمت میں مصروف ہیں جو کسی پاکستانی کو وقتی طور پر قرض دے کر اسے مشکل سے نجات دلاتے ہیں اور یہ پاکستانیوں کی احسان شناسی ہے کہ وہ اس مدد کا احترام کرتے ہیں اور ایک مدت کے بعد اسے واپس ادا کر دیتے ہیں، اس طرح یہ سلسلہ دست بدست چلتا رہتا ہے اور نہ صرف سابقہ بلکہ اس میں مزید رقم کا اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
اس طرح اخوت کا ادارہ اربوں تک کی مدد کا اہل ہو چکا ہے اور یہ ارب روپے کوئی غیر ملکی امداد نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ پاکستانی ہے پاکستانیوں کی خون پسینے کی کمائی ہے جو یہ محب وطن پاکستانی اپنے ہموطنوں کی خدمت میں ان کی کسی مشکل کو حل کرنے کے لیے پیش کر رہے ہیں اور بہت خوش ہیں کہ ان کی وجہ سے کتنے ہی پاکستانیوں کی مشکل حل ہو رہی ہے اور انھیں حب الوطنی کا اجر مل رہا ہے۔ یہ تو وہ امداد ہے جو کسی نہ کسی دن واپس آ جاتی ہے اور پھر کسی دوسرے پاکستانی کی کوئی مالی مشکل حل کر دیتی ہے۔ اس طرح ملک کے اندر ہی اندر ایک سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
کسی غیر کی محتاجی کے بغیر۔ جب میں کسی ایسے پاکستانی کا ذکر پڑھتا سنتا ہوں تو مجھے وہ غیر ملکی قرضے یاد آتے ہیں جو ہمارے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو کامیاب کرتے ہیں لیکن اگر قوم کو اپنے اداروں پر اعتماد ہو کہ وہ ان کے رزق حلال کو ضایع نہیں کریں گے تو میں جو پاکستانیوں کو جانتا ہوں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمیں بیرونی امداد سے بے نیاز کر دیں گے لیکن یہ پاکستان ملک کے اندر اور باہر جس خونفشانی کے ساتھ کچھ رقم بچاتے ہیں یہ اسے ضایع ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔
گزشتہ دنوں ہمارے وزیر خزانہ نے قرضوں کے حصول کی مہم چلائی اور بھاری مقدار میں قرض جمع بھی کر لیا لیکن قرض دینے والے بے رحم ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے قرض دے رہے ہوتے ہیں اور کسی رعایت کے قائل نہیں ہوتے اس لیے یہ قرض بھی ایک بے رحم بوجھ ہوتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم نے اتنا قرض حاصل کر لیا ہے جو ہم اپنی آمدنی سے تو ادا کر نہیں سکتے صرف اپنا سامان بیچ کر ادائیگی کی کوئی صورت نکال سکتے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان دنوں ہم اپنا ساز و سامان اور نفع بخش ادارے فروخت کر رہے ہیں۔ یہ ادارے چونکہ ناجائز طریقے اور نامناسب حالات پیدا کر کے بیچ رہے ہیں اس لیے ان اداروں کے کارکن ہڑتال پر اتر آتے ہیں ورنہ بعض ادارے ایسے ہیں کہ ان کی ہڑتال یعنی کام بند کرنے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔
مثلاً ہماری واحد قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کو کون فروخت کر سکتا ہے لیکن سب کچھ جانتے اور دیکھتے بھالتے ہوئے ہم نجکاری کے نام پر ان اداروں کو ٹھکانے لگا رہے ہیں۔ ہماری پی آئی اے کو ہمارے فضائی ماہرین نے بنایا۔ ائر مارشل اصغر خان اور ایئرمارشل نور خان یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بھارت جیسے بڑے ملک کے مقابلے میں پاکستان کی ایئر فورس کو اس خطے کی فضاؤں کا حاکم بنا دیا تھا۔ اور جب پہلی جنگ ہوئی یا ہم پر ٹھونسی گئی تو ہماری ایئرفورس نے بھارت کی بڑی ایئرفورس کو اس کے اڈوں پر ہی جہنم رسید کر دیا۔ بھارتی جہاز زمین سے اٹھ نہ سکے۔
اور ہم نے نعرہ لگایا کہ ''دریا ہوں یا صحرا یہ سب ہمارے بال و پر کے نیچے اور اس کی زد میں ہیں''۔ اور یہ محض ایک جذباتی نعرہ نہیں تھا واقعہ تھا حقیقت تھی۔ ہم برصغیر کی فضاؤں کے مالک تھے۔ اگرچہ بھارت نے ہمارے خوف سے اسلحہ کے انبار لگا لیے اور دنیا بھر میں وہ سب سے بڑا اسلحہ کا خریدار بن گیا لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کے بال و پر کے نیچے سہما ہوا ہے اور یہ بات بالکل سچ ہے کہ اسلحہ نہیں سپاہی لڑتا ہے اور پاکستانی سپاہی اپنی دنیا اور عاقبت دونوں سنوارنے کے لیے جنگ نہیں جہاد کرتا ہے۔ اسے موت سے ڈر نہیں لگتا بلکہ وہ میدان جنگ میں شہادت کا طلبگار ہوتا ہے اور اگر اسے شہادت نصیب نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو شکست خوردہ سمجھتا ہے۔
ایسے موقع پر یاد آتا ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ بستر پر پڑے تھے اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتے تھے کہ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر جہاد میں لگنے والا کوئی زخم نہ ہو لیکن میں بستر پر مر رہا ہوں۔ شہادت سے محروم۔ شہادت سے محرومی کا دکھ کوئی خالد بن ولید سے پوچھے جو سپاہی جنگ کے میدان میں موت کو اپنی بہت بڑی سعادت سمجھتا ہو اگر بستر پر زندگی و موت کی کشمکش سے گزر رہا ہو تو کوئی اس کی محرومی کو دیکھے اور اس کی فریاد کو سنے۔ کسی فوج کے ایسے سپاہیوں کے خلاف کون جنگ کر سکتا ہے چنانچہ بھارتی جرنیل برسرعام اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کا سپاہی ہمارے سپاہی سے بہتر ہے۔
پاکستانی سپاہی کے چار ہاتھ نہیں ہیں صرف اس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ذرا مختلف ہے اور جنگ میں یہی دل لڑتا اور لڑاتا ہے آج اگر ہمارا معاشرتی بہبود کا کوئی ادارہ پاکستانیوں پر فخر کرتا ہے کہ وہ اپنا رزق حلال اپنے پاکستانیوں بھائیوں پر قربان کر دیتے ہیں تو وہ اس قوم کے ایک وصف کا اعتراف کرتا ہے ۔
خدانخواستہ جنگ ہو تو پھر یہ قوم پوری کی پوری فوج میں 'بھرتی' ہو جاتی ہے اس کا ہر کام فوج کے لیے ہوتا ہے اور اس کا سرمایہ تو فوج کا سرمایہ ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم کو قابل اعتماد قیادت کی ضرورت ہے۔ تاجر اور کاروباری قیادت کی نہیں ایک ایسی قیادت جو وطن کی آن پر قربان ہونے پر تیار ہو پھر دیکھیے کہ یہ ملک پاکستان اور اس کی قوم دنیا کی کتنی بڑی اور طاقت ور قوم ہے جو اپنے سرمایہ کی پروا بھی نہیں کرتی جب کہ دنیا سرمائے پر مرتی ہے۔