وہ ایک انگلی
یہ سیاسی برکت خربوزے کے کھیت کی خوشبو کی طرح پھیلتی رہتی ہے کہ جب ایک خربوزہ پک جاتا ہے
دو دوست تھے اور دونوں غریب تھے۔ دن رات محنت مزدوری کرتے تھے مگر پھر بھی بمشکل دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی تھی۔ ان میں سے ایک دوست پر اللہ تعالیٰ مہربان ہو گیا اسے چھوٹے سے کاروبار میں اتنی کامیابی ہوئی کہ وہ دولت مندوں میں شمار ہونے لگا لیکن درحقیقت وہ ایک عبادت گزار تھا اور اس کا زیادہ وقت تجارت میں نہیں عبادت میں گزرتا تھا لیکن اس عبادت میں اس کو آسانی کے ساتھ دو وقت کی روٹی نصیب ہو جاتی تھی۔
اس کے غریب دوست تک اس کی خوشحالی کی خبر پہنچی تو اس نے اپنے امیر دوست سے ملاقات کی اور اس کو اپنی غربت کا حال بتایا۔ یہ سن کر اس کے دوست نے جو معرفت و سلوک کی منزلوں میں سفر کر رہا تھا اپنے غریب دوست سے کہا کہ وہ فکر نہ کرے اور سامنے پڑی ہوئی ایک اینٹ کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور کہا کہ دیکھو یہ اینٹ اب سونے کی بن گئی ہے اسے اٹھا لو لیکن اس کا غریب دوست اس پر مطمئن نہ ہوا، یہ دیکھ کر اس کے دوست نے ایک بڑی سی چیز کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور وہ بھی سونے کی ہو گئی اور کہا کہ یہ تو اینٹ سے بہت بڑی ہے اسے اٹھا لو لیکن وہ غریب دوست پھر بھی خوش نہ ہوا، اس پر اس کے دوست نے تعجب سے پوچھا آخر تم چاہتے کیا ہو، جواب میں غریب دوست نے کہا کہ میں یہ انگلی چاہتا ہوں۔
یہ اس غریب دوست کی ذہانت کا کمال تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس انگلی میں یہ خاصیت کہاں سے پیدا ہوئی ہے اسے کسی ولی اللہ کی نظر نے کیا بنا دیا ہے مگر اس انتہائی بابرکت انگلی کو لیا دیا نہیں جا سکتا جس کے نصیب میں ہے یہ اسی کی ملکیت ہے۔ اس غریب دوست کی غربت اپنی جگہ مگر اس کی ذہانت کا کمال آپ نے دیکھ لیا کہ اس نے وہ مانگ لیا جو اصل تھا۔ اس سارے واقعے کو آپ ایک لطیفہ سمجھ لیں لیکن اپنے آس پاس ذرا غورسے دیکھیں تو آپ کو کسی نہ کسی ہاتھ میں ایسی کوئی انگلی دکھائی دے گی جو پتھر کو سونا بنا دے گی۔
اس کی کرامات زیادہ تر کامیاب سیاست میں دکھائی دیتی ہیں کہ جب کوئی کسی کامیاب سیاستدان کے حلقے میں داخل ہو جاتا ہے تو اس سیاستدان کی انگلی کسی وقت اچھے موڈ میں کسی سامنے کی اینٹ کی طرف اٹھ جاتی ہے اور پھر اس پرانے واقعے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے کئی سیاستدان بھی زندہ ولی ہوتے ہیں اور ان کے حلقہ ادارت میں شامل بعض کارکن مٹی سے سونا بن جاتے ہیں اور دنیا کو حیرت زدہ کرتے رہتے ہیں۔ سیاست کی دنیا میں جو سیاست دان اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں۔
ان کو ایسی انگلی بھی عطا ہو جاتی ہے جو ان کے کسی کامیاب سیاسی وظیفے کا عطیہ ہوتی ہے۔ یہ سیاسی برکت خربوزے کے کھیت کی خوشبو کی طرح پھیلتی رہتی ہے کہ جب ایک خربوزہ پک جاتا ہے تو اس کی خوشبو کھیت میں جہاں تک جاتی ہے وہاں تک سب کچے خربوزے پک جاتے ہیں۔ کوئی عقلمند سیاست دان ایسا نہیں ہوتا جو اپنی سخاوت کی خوشبو نہ پھیلاتا ہو اور جو کارکن اس خوشبو سے مستی میں آ جاتے ہیں وہ کارکنوں کی دنیا کے لیڈر بن جاتے ہیں یعنی دوسرے محروم کارکن انھیں دیکھ کر اپنے لیڈر کی سیاسی خدمت میں جُت جاتے ہیں اور لیڈر کی انگلی انھیں کچھ نہ کچھ دے ہی دیتی ہے کیونکہ اس کی لیڈری بھی انھی کارکنوں کی مدد سے چلتی ہے اور جب تک کارکن مطمئن رہتے ہیں لیڈری چلتی رہتی ہے۔
سیاسی لیڈر اور سیاسی کارکن درحقیقت ایک پہلو کے دو نام ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر اپنی چمک دمک برقرار نہیں رکھ سکتے۔ کسی بھی بڑے لیڈر کا مطالعہ کیجیے یعنی اس کے حلقے میں گھومتے پھرتے رہیں تو آپ کو ایسے کئی کارکن دکھائی دیں گے جن کی زبان پر اپنے لیڈر کے نام کے سوا کسی دوسرے لیڈر کا نام نہیں ہوگا، یہ کارکن دراصل لیڈر کے ہرکارے ہوتے ہیں جو اس کے حلقے میں اس کے بارے میں سچ جھوٹ پھیلاتے رہتے ہیں اور اپنی ہر کامیابی اور خوشی کو اس کے نام کرتے رہتے ہیں۔
لیڈر بھی اپنے ان کارکنوں کو کبھی بھول نہیں سکتا اگر وہ ان کو بھول جائے اور یہ بھی جواب میں اس کو بھول جائیں تو پھر نہ لیڈر رہے نہ اس کی لیڈری۔ بعض خوشحال اور کامیاب لیڈر حسب توفیق بعض کارکنوں کو باقاعدہ اپنے پروپیگنڈے کے لیے بھرتی کر لیا کرتے ہیں جو اس کے حلقے میں پھیل کر جگہ جگہ اس کا نام بلند کرتے رہتے ہیں اور ایسے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ان کے آس پاس گھومتی پھرتی رہتی ہے جو ان کے نام پر گزر بسر کر لیتی ہے اور بھوکوں نہیں مرتی۔ اب یہ کسی کارکن کی محنت اور ہوشیاری پر منحصر ہے کہ وہ کسی لیڈر کو کتنا کھا پی سکتا ہے۔
کامیاب اور نیک نام لیڈر بھی اپنے کارکنوں کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے بغیر وہ بھی اپنی لیڈری کو زندہ نہیں رکھ سکتے۔ لیڈر اور کارکن کا یہ ساتھ دونوں کی مجبوری ہوتا ہے اور لیڈر کو اپنی انگلی سے مسلسل کام لینا پڑتا ہے۔ میں لاتعداد لیڈروں کو جانتا ہوں کہ صحافت کی زندگی ان کے قرب و جوار میں گزری ہے اور بعض خاندانی اور جدی پشتی رئیس سیاستدان ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے کسی پرانے کارکن کو زمین تک عنایت کر دی اور اپنے مستقل ساتھیوں کو ہر حال میں یاد رکھا۔ ایک بات یاد آ گئی ہے کہ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کو بھٹو صاحب نے ان سے گلو خلاصی کرانے کے لیے برطانیہ میں سفیر مقرر کر دیا۔
میاں صاحب نے یہ منصب قبول کرنے کے ساتھ کہا کہ مجھے دو میں سے ایک پاکستانی کو بھی ساتھ لے جانے کا موقع دیا جائے۔ ایک میاں محمد شفیع (م ش) اور دوسرے قادر حسن ورنہ میں لندن میں اکیلا بور ہو جاؤں گا لیکن ہم دونوں میں سے لندن منتقل ہونے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا مگر میاں صاحب نے پوری کوشش کی اور ان کی بڑی خواہش بھی تھی۔ ان کی بیگم صاحبہ بھی اس سلسلے میں اپنے شوہر کی ہمنوا تھیں۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پرانے زمانے کے سیاستدان بڑے رکھ رکھاؤ والے لوگ تھے اور دوستوں کو ہر حال میں یاد رکھتے تھے۔ اب زمانہ بہت بدل گیا ہے اور سیاستدان اور ان کے سیاسی کارکن ایک کاروباری تعلق رکھتے ہیں۔
سیاسی تعلق اب باقی نہیں رہا۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب سیاستدان بھی برائے نام سیاستدان رہ گئے ہیں ان کا بھی سیاست کے ساتھ ایک کاروباری تعلق ہے نظریاتی تعلق بہت کم ہے بلکہ میں نے تو بڑے بڑے نامور سیاستدان دیکھے ہیں جو بڑی نظریاتی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے مگر کسی عام سی مصلحت کے لیے پارٹی بدل لی۔ بعض سیاستدانوں سے تو پوچھنا پڑتا ہے کہ وہ ان دنوں کس پارٹی کی عزت افزائی کر رہے ہیں۔ بہر حال اس کمزور سیاست کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب فوجی جرنیلوں سے کھلم کھلا کہا جا رہا ہے کہ وہ حکومت سنبھالنے کے لیے تیار ہو جائیں اور اس نوکری سے ریٹائر ہونے کا نام نہ لیں اور اپنی زندگی بخش انگلی کو زندہ رکھیں۔