فوجی تو قابل احترام ہیں

لاقانونی‘ بدعنوانی‘ رشوت ستانی اور اس طرح کے دوسرے تمام غلط رویوں کو اب ہمارے ہاں عرف عام میں کرپشن کہا جاتا ہے


Abdul Qadir Hassan February 27, 2016
[email protected]

لاقانونی' بدعنوانی' رشوت ستانی اور اس طرح کے دوسرے تمام غلط رویوں کو اب ہمارے ہاں عرف عام میں کرپشن کہا جاتا ہے دوسرے کئی غیر ملکی الفاظ کی طرح انگریزی کا یہ لفظ بھی رفتہ رفتہ ہماری زندگی زبان اور بول چال کا حصہ بن گیا ہے اور کرپشن ہماری قومی زندگی میں اس قدر گہرائی تک پھیل گئی ہے کہ بدقسمتی سے اب ہم اس کے بغیر اپنی قومی زندگی اور معاشرے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔

یوں تو رشوت ہمیشہ رہی ہے لیکن چھپ چھپا کر۔ پرانے وقتوں میں ہمارے ایک شناسا نے چھوٹی سی رشوت لے لی' کوئی دو تین روپے لینے کو تو لے لی لیکن اس کا چھپانا مشکل ہو گیا چنانچہ اس نے طویل غور و فکر کے بعد سائیکل کے ہینڈل میں یہ رشوت چھپا لی اور پھر جلد از جلد خرچ کر کے اس سے جان چھڑا لی۔ یہ وہ زمانے تھے جب خدا کا خوف تھا یا نہیں تھا قانون کا خوف ضرور تھا اور برطانوی حکمران اپنے محکوم علاقے میں بدعنوانی پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے ایک دور کے ڈیرے پر دو قتل ہو گئے۔

ایس پی کی نگرانی میں پولیس نے تفتیش کے لیے ڈیرے ڈال دیے کہتے ہیں کہ جب کوئی قتل ہوتا تھا تو ایس پی وہاں ضرور جاتا تھا۔ قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا اور ایس ایچ او نے جتنا پتہ چلایا اس کے مطابق اس نے ملزموں کو پکڑ لیا۔ تفتیش کے دوران اسے معلوم ہوا کہ اس رات مقتولوں کے ڈیرے پر کتے مسلسل بھونک رہے تھے اور یہ کتے باہر سے آئے تھے کچھ لوگوں کے ساتھ اور پھر واردات کے بعد یہ واپس چلے گئے۔

کتوں کی بے وقت پُرشور آمد و رفت سے تھانیدار اس نتیجے پر پہنچا کہ اس ڈیرے کے مخالفوں نے یہ واردات کی ہے جو خاموشی کے ساتھ نہیں کی جا سکی بہر حال تھانیدار نے مقتولوں کے مخالفوں کو پکڑ لیا اور مقدمہ چلا کر انھیں پھانسی تک لے گیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت کتوں کا بھونکنا اور مقتولوں کے ڈیرے پر شور و غل یہ سب قاتلوں کا ڈرامہ تھا اور بے گناہ لوگ ان کا نشانہ بن گئے۔ تھانیدار کو جب اپنی اس حماقت یا غلطی کا علم ہوا تو وہ سیدھا ایس پی کے پاس حاضر ہو گیا جو ایک انگریز تھا اور اسے سیلوٹ مار کر اپنی حماقت سے آگاہ کر دیا۔

یہ سن کر ایس پی بھی چکرا گیا چپ ہو گیا اور کافی دیر بعد اس نے تھانیدار کو قریب بلایا اور کہا کہ اب ہماری نجات اس میں ہے کہ بالکل چپ ہو جائیں اور اصل واقعے کی کسی کو بھنک بھی نہ پڑنے دیں۔ اب ہمارا کمال اس میں ہے کہ یہ راز ہمیشہ کے لیے راز ہی رہے۔ تھانیدار کی خواہش تھی کہ ملزموں سے کچھ مل جائے لیکن قتل تو تھانیدار نے چھپا لیا مگر رشوت چھپ نہیں سکتی تھی اور جب پکڑی جاتی تو اس کی سزا بھی بڑی بھیانک تھی بے گناہوں کی پھانسی کی طرح یہ بھی جرم بن جاتی۔

یہ سب اس زمانے کی باتیں ہیں جب انگریز حکمران ملکہ کے تاج کی عزت کے لیے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ رشوت تب بھی چلتی تھی لیکن غیر معمولی احتیاط کے ساتھ اور اگر کوئی اہلکار رشوت خوری کرتا تھا تو وہ رشوت خور کے طور پر مشہور بھی ہوتا تھا مگر آج دیکھیں تو کرپشن کو چھپانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے ہر کوئی کرپٹ ہے اور ہمارے بعض سیاستدان بھی کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں اور سرکاری محکموں کے سربراہ بھی نظر بچا کر یہ کام کرتے ہیں۔

غنیمت ہیں پولیس کے بعض اعلیٰ افسر جو ایسے بھی ہیں کہ صاف ستھری ملازمت کرتے ہیں تنخواہ پر گزر اوقات کر لیتے ہیں اور باعزت ریٹائر ہوتے ہیں۔ ورنہ ہمارے ہاں کرپشن جس قدر پھیل گئی ہے اس میں اب مزید زندہ رہنا آسان نہیں رہا۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو ہو سکتا ہے ہماری آنے والی نسلیں ان حالات کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادی ہو جائیں جہانتک ہمارا پرانے زمانے کے لوگوں کا تعلق ہے ہم حالات سے بہت گھبرا گئے ہیں۔

میں کئی بار سیاسی جماعتوں سے عرض کرنے کا پروگرام بنا رہا تھا کہ انھیں اس طرف متوجہ کیا جائے خدا کا شکر ہے کہ ایک جماعت نے کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے یہ ہے جماعت اسلامی۔ جس کے جماعتی نظم و ضبط کا بہت شہرہ ہے اور امید ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کر لے گی بلکہ یوں کہیں کہ وہ پاکستانی معاشرے کو اس تباہی سے بچائے گی جو ایک بلا بن کر اس پر نازل ہو گئی ہے جب کہ دوسری جماعتیں فوج کے بارے میں کوئی بیان جاری کرنے اور پھر اس سے مکرنے میں ہی مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے فوج کی حکومت ہمارے لیے ایک حقیقت ہے اور ہمارے کئی سیاستدان ایسے ہیں جو فوج کی حکومت میں ہی کامیاب رہتے ہیں یا جنھیں فوجی حکومت ہی زندہ رکھ سکتی ہے کیونکہ عوام کے مقابلے میں فوج کے ساتھ معاملہ کرنا آسان ہوتا ہے اور اب تو ہمارے کئی سیاستدان فوجی امور میں ماہر ہو گئے ہیں اور فوج اور سول کے تعلقات کی سائنس کو خوب سمجھنے لگے ہیں۔

جمہوریت کی جگہ فوجی حکومت پر اعتراض کیا جاتا ہے لیکن بعض صورتوں میں ہم مسلمانوں کے ہاں فوجی حکومت کوئی عیب نہیں ہے۔ اگر ہمارے ہیرو خالد بن ولیدؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبی ہوں گے تو پھر فوج سے ہم ناراض کیسے ہو سکتے ہیں بلکہ ایسے کئی فوجی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جو ہمارے قومی استحکام کا سبب بنے رہے ہیں اور ہم ان کا بے حد احترام کرتے ہیں برصغیر میں اسلام کو لانے والا کیا ایک نوجوان فوجی محمد بن قاسم نہیں تھا اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ اس کا دامن ہر قسم کی بدعنوانی سے پاک تھا وہ ایک صحیح معنوں میں مسلمان حکمران تھا۔ یوں کہیں تو ہر گز غلط نہیں ہو گا کہ ہماری تاریخی عظمت جہاں ہمارے اسلامی اصولوں کی مرہون منت ہے وہاں ان اصولوں کی آبیاری کے لیے سپہ سالاروں کی مرہون منت بھی ہے۔

مسلمانوں کے ہاں جنگ نہیں جہاد ہوتا ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور زندہ رہیں تو غازی مر جائیں تو شہید اور شہادت کا مقام کتنا بلند ہے اس کے ذکر پر کتاب و سنت گواہ ہیں۔ ہم آج بھی میدان جنگ میں فوت ہونے والے کو شہید کہتے ہیں اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جان دینے والے شہید تمہاری طرح زندہ ہوتے ہیں کھاتے پیتے ہیں مگر تم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔ ہم مسلمان موت کے بعد دوسری زندگی پر ایمان رکھتے ہیں ایک ایسی زندگی جو کبھی ختم نہ ہو گی جو لوگ جنت کے حقدار ہوں گے وہ ایک ایسی زندگی کے مالک ہوں گے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے بڑے بڑے مجاہدین اور سپاہیوں کی سب سے بڑی خواہش میدان جہاد میں شہادت ہوتی ہے اور ہم پاکستانی اپنے شہیدوں کو ایک برگزیدہ ہستی سمجھتے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی فوجی کا کسی بھی منصب پر فائز ہونا کوئی عیب نہیں ہے۔ ہم جن فوجی جرنیلوں پر تنقید کرتے ہیں وہ برطانوی طرز کی فوج کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور ہم ان سے خوش نہیں ہوتے جب کہ کئی بار زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جو ہمارا آئیڈیل ہوا کرتے ہیں۔ فوجی زندگی ہم مسلمانوں کے ہاں ایک آئیڈیل زندگی ہے اگر کوئی فوجی صحیح قسم کا حکمران ہوتا ہے جو اسلام کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے تو وہ تو ہمارا ہیرو ہوتا ہے اور ہماری تاریخ ایسے مجاہدین سے بھری ہوئی ہے۔ بہر کیف ایک فوجی مسلمان کو ایک عام مسلمان سے زیادہ اجر ملتا ہے اور ہمیں اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے اور اس جیسی زندگی کی آرزو کرنی چاہیے۔ ہماری جماعتوں کو فوجی پاکستانیوں کا خصوصی احترام کرنا چاہیے اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مقبول خبریں