تحریک پاکستان اور ہندو
ہم آج بلاشبہ ایک مضبوط ملک ہیں ایک ایٹمی طاقت لیکن ہماری قومی پالیسیاں کیا ہمارے قومی استحکام کی پالیسیاں ہیں
انسانی تاریخ کا منفرد کارنامہ سرانجام دینے والے ہمارے قائد محمد علی جناح نے برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران محسوس کر لیا کہ ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کا قیام کس قدر ضروری ہے چنانچہ وہ جب برطانیہ میں اپنا قیام ترک کر کے واپس ہندوستان آ رہے تھے تو راستے میں انھوں نے بعض عرب مسلمان ملکوں میں رک کر وہاں کے مسلمانوں سے خطاب کیا اور انھیں ہندوستان کے مسلمانوں کے ان خطرات سے آگاہ کیا جو انھیں ہندو اکثریت سے لاحق تھے اور مزید سامنے آنے والے تھے چنانچہ ان کی غیر معمولی سیاسی بصیرت نے جو محسوس کیا انھوں نے بیرون ہندوستان مسلمانوں کو اس سے آگاہ کیا۔
عرب مسلمانوں کے سیاسی اور ثقافتی مرکز قاہرہ میں انھوں نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ اگر ہندوستان کی زمین پر وہاں کے مسلمانوں کی مجوزہ آزاد ریاست قائم نہ ہوئی تو ہندو وہاں کے مسلمانوں کو ختم کر دیں گے جان سے مار دیں گے، اس لیے بحیثیت مسلمان آپ کا فرض ہے کہ ہماری مدد کریں ہمارا ساتھ دیں اور ہندوستان کی سرزمین پر ایک مسلمان ریاست کے قیام کو ممکن بنا دیں۔ قائد کی یہ پیش گوئی تحریک پاکستان کے زمانے کی تھی اور حیرت ہوتی ہے اس مسلمان قائد کی سیاسی بصیرت پر کہ اس کی صداقت مسلسل ظاہر ہوتی رہتی ہے اور ہندو کی مسلم دشمنی جاری ہے۔
نئی دہلی سے آنے والی تازہ ترین خبر کے مطابق بی جے پی کی ذیلی ہندو انتہا پسند تنظیم سنگھ پریوار نے مسلمانوں کو بدروح قرار دیا ہے اور انھیں دھمکی دی ہے کہ ان کے خلاف حتمی جنگ لڑی جائے گی۔ یہ دھمکی ان کے ایک لیڈر ارون مہر کی ہلاکت پر تعزیتی اجلاس میں دی گئی ہے۔ اس تعزیتی اجلاس میں بھارت کے ایک وزیر اور بی جے پی آگرہ کے رکن پارلیمنٹ رام شنکر اور دوسرے کئی لیڈر شامل تھے ان رہنماؤں نے ہندوؤں پر زور دیا کہ وہ مسلمان راکھششوں کو تباہ و برباد کر دیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے لیڈر ارون مہر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔
ارون کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے انسانی کھوپڑیاں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایک لیڈر اشوک نے کہا کہ اترپردیش میں الیکشن2017ء میں ہوں گے جن کے لیے آپ کو ہتھیار اٹھانے گولیاں چلانے اور چاقو چلانے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ آپ کو اپنی قوت دکھانی ہو گی۔ اس جلسے میں جس ہندو کا خون نہ کھولے وہ خون نہیں ہے پانی ہے۔ ہمیں یہاں (بھارت) سے مسلمانوں کو نکالنا اور ختم کرنا ہے۔ ایسے ہی مسلم دشمن خیالات پر یہ جلسہ ختم ہوا۔ ان دنوں بھارت کے مختلف حصوں سے مسلمانوں کو ختم کرنے اور بھارت سے بے دخل کرنے کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور ان کا انداز اور پس منظر وہی ہے جو تحریک پاکستان کے وقت تھا۔
ہندوؤں کے اس سیاسی رویے سے یہی لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے قیام پر مطمئن نہیں ہوئے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر بھارت کی سرزمین سے مسلمانوں کو سرے سے ہی ختم کرنا چاہتے ہیں جس کے بارے میں ان کا ایمان ہے کہ یہ صرف ہندوؤں کی زمین ہے اور مسلمان ہوں یا کوئی اور وہ سب گھس بیٹھیے ہیں اور ان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یہاں آباد رہیں اگر وہ یہاں موجود ہیں تو ان کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ ہندوستان کی سرزمین صرف ہندوؤں کی زمین ہے۔
بھارت کے ہندوؤں کی یہ وہی باتیں ہیں جن کو محمد علی جناح نے محسوس کر لیا تھا اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے یہ اپیل کی تھی کہ پاکستان کے قیام میں ہمارا ساتھ دو ورنہ ہندو برصغیر کے مسلمانوں کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت ہندو مسلم دو قوموں کے درمیان صرف سیاسی مخالفت تھی لیکن جب پاکستان بن گیا اور مسلمان بھی ہندوؤں کی طرح اس ملک کے شہری بن گئے انھوں نے تمام حقوق بھی حاصل کر لیے تو ہندو بلبلا اٹھے اور آج 1947ء کے برسوں بعد بھی وہ اس سیاسی اختلاف کو نسلی اختلاف بنا رہے ہیں اور مسلمانوں کو بزور بازو ہندوستان سے نکالنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کی ہندوستان میں موجودگی ان کے لیے ایک دشمن کی موجودگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکا پر اسے ہزار برس تک ہندوؤں پر مسلمان حکومت سے انتقام قرار دیا تھا اور یہ بھارت کے ہر ہندو کے دل کی آواز تھی۔ مسلمانوں کے بارے میں بھارتی رویے سے یہی واضح ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان ابھی تک جاری ہے اور جو بات وہ تحریک پاکستان کے دور میں نہیں کہہ سکے تھے وہ اب کہہ رہے ہیں یعنی مسلمانوں کو اس دھرتی پر قدم رکھنے کا حق حاصل نہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہندو تو جو سوچیں ان کی مرضی مگر ہم پاکستانی جو کر رہے ہیں یہ تحریک پاکستان کے مطابق نہیں ہے۔
ہمارے لیڈروں کی بصیرت اور ایمان پرور قیادت نے پاکستان تو بنا لیا جو ایک معجزہ سمجھا جاتا ہے اور جسے ایک غیر معمولی منفرد تاریخی کامیابی قرار دیا جاتا ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد ہم اسے سنبھال نہیں سکے اور اب یہ نصف ہو چکا ہے اور کیا وہ اسباب اب تک موجود نہیں ہیں جو سقوط ڈھاکا کا سبب بن گئے تھے۔ ہندو تو جو کہیں ان کی سیاست لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں کیا یہ ہماری سیاست ہے یا ناکامی ہے۔
ہم آج بلاشبہ ایک مضبوط ملک ہیں ایک ایٹمی طاقت لیکن ہماری قومی پالیسیاں کیا ہمارے قومی استحکام کی پالیسیاں ہیں۔ ہمیں اس ملک کو سنبھالنے کی مسلسل کوشش کرنی ہو گی کیونکہ اس کا دشمن بیدار اور ہوشیار ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ اسے سنبھلنے نہ دے۔ ہمارے بدنام لیڈروں کو کچھ تو ہوش کرنی چاہیے۔ ان کے خزانے لبالب ہو گئے ہیں اور ان کے اثاثے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس ملک اور قوم نے انھیں کیا کچھ نہیں دیا اب وہ بھی کچھ واپس کریں یا مزید لوٹ کھسوٹ ہی بند کر دیں وہ تحریک پاکستان کے مسلمان لیڈروں کا کچھ تو لحاظ کریں۔