لیکن مارشل لاء ہرگز نہیں

یوں یہ مردم شماری مکمل ہو جاتی ہے لیکن ہماری سول انتظامیہ کو یہ عادت پڑ گئی ہ


Abdul Qadir Hassan March 08, 2016
[email protected]

WASHINGTON: کئی دنوں سے ہماری حکومت فریادی ہے کہ اسے مردم شماری کرانی ہے مگر اس کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں کہ وہ یہ وسیع کام کر سکے اس لیے فوج ہماری مدد کرے لیکن یہ کہتے ہیں کہ ہم دفاعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اس لیے ہمیں مردم شماریوں وغیرہ جیسے غیردفاعی کاموں کی فرصت نہیں ہے۔

سول حکومت ایک لاکھ فوجی رضا کاروں کا مطالبہ کرتی ہے۔ مردم شماری ایک معمول اور روٹین کا معاملہ ہے جو سول حکومت کیا کرتی ہے اور برسوں میں ایک آدھ بار اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کام کے لیے فوج کی مدد سمجھ میں نہیں آتی۔ مردم شماری کسی جنگ کا حصہ نہیں ہے۔ ملک کی آبادی کی گنتی کرنی ہوتی ہے اور آبادی کے بارے میں ہی چند دوسری معلومات اور بس۔

یوں یہ مردم شماری مکمل ہو جاتی ہے لیکن ہماری سول انتظامیہ کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ وہ ہر بڑا کام فوج سے کرانا چاہتی ہے خواہ سیلاب ہو یا کوئی اور بڑا کام اور جب فوج آ جاتی ہے تو سول حکومت اور عوام شور مچا دیتے ہیں کہ ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے ہم کوئی چار مارشل لاء لگا اور بھگت چکے ہیں اور ان میں خود مارشل لاء والوں کے بقول مسائل میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔

میں نے خود ایک مارشل لاء حکمران جنرل ضیاء الحق کی زبانی یہ سنا کہ ہم تو ابھی اپنے پیدا کردہ مسائل کو بھگت رہے ہیں جن مسائل کو حل کرنے کے لیے مارشل لاء لگایا تھا وہ تو ابھی تک جوں کے توں موجود ہیں۔ ان کے لیے ہمیں فرصت ہی نہیں ملی۔

مردم شماری جیسے غیر فوجی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاکستان شاید ان دو چار ملکوں میں سے ہو گا جو اسے فوج کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومت کو کم از کم ایک لاکھ فوجی درکار ہیں جو مردم شماری کرنے میں سول حکومت کی مدد کریں ورنہ یہ ضروری کام نہیں ہو گا ہم کتنے ہیں ہماری کل تعداد کتنی ہے۔

اس میں بوڑھے جوان بچے اور عورتیں کتنی ہیں اور ان کی تعلیم وغیرہ کا کیا حال ہے اسی طرح کی چند دیگر معلومات بھی جو کسی ملک کو چلانے اور اس کی ترقی کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ یہ کام سول انتظامیہ کا ہوتا ہے اور فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس کام کے لیے تربیت یافتہ ہوتی ہے تھوڑی یا بہت ایک منظم تعداد رکھتی ہے اس لیے ہر قومی سطح کے مسئلے کے لیے فوج کو طلب کیا جاتا ہے۔

فوج بہر حال سول کی مدد کے لیے آجاتی ہے لیکن ایک تو وہ اس وقت اپنا اصل کام نہیں کر سکتی دوسرے اس کی ٹریننگ میں خلل پڑتا ہے اور اس کا ڈسپلن بھی کمزور پڑ جاتا ہے جو فوج کی اصل طاقت ہے مگر بعض اوقات حالات اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ فوج کو اپنے اندرونی حالات بھی کسی دشمن کی ریشہ دوانی کی طرح حل کرنے پڑتے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر باقی رہتا ہے کہ پھر سول حکومت کے کارکن کیا کرتے ہیں جن کی تعداد فوجیوں کی طرح بہت ہوا کرتی ہے مگر ڈسپلن سے محروم اور قاعدے قرینے سے کام کرنے سے عملاً معذور۔ فوج تو صرف اس وقت طلب کی جانی چاہیے جب سول کے اہلکار کسی قومی سطح کے مسئلے سے نپٹ نہ سکیں۔

مثلاً کوئی قدرتی آفت جیسے زلزلہ یا سیلاب وغیرہ ایسی کسی مشکل میں فوج خود بخود متحرک ہو جاتی ہے اور سول سے پہلے فوجی دستے آفت زدہ علاقوں میں موجود ہوتے ہیں بلکہ اب تو ایسی ایک قومی آفت میں فوج نے بھی دیکھا کہ اس سے پہلے وہاں ایک مذہبی جماعت کے کارکن موجود تھے اور بچاؤ میں لگے ہوئے تھے۔

ایک فوجی افسر نے مجھے بتایا کہ ہم نے جب ان سویلین بھائیوں کو سرگرم دیکھا تو بہت ہی خوشی ہوئی اور اپنی قوم پر اعتماد بڑھ گیا کہ جنگ کے زمانے میں بھی ہمارے پاس ایک رضا کار فورس موجود ہے جو ہم سے پہلے ہمارا کام کرنا شروع کر دیتی ہے جب کہ اس کے پاس ہماری طرح نہ تو ٹرانسپورٹ ہوتی ہے نہ کوئی دوسرا سامان لیکن خدمت کا بے پایاں جذبہ ان رضا کاروں کو اپنے دکھی بھائیوں کے پاس بھیج دیتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ انھوں نے اپنا راشن بھی ان متاثرین میں بانٹ دیا اور خود بھوکے رہ گئے۔

یہ ہمارے وہ غیر فوجی رضا کار ہیں جو خود بخود ہی سرگرم ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہی اس کا اجر طلب کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں جو دوسری ابدی زندگی کا ایک تصور پایا جاتا ہے اور جو زندگی اس پہلی زندگی کے گناہ و ثواب کے اجر پر گزرتی ہے ایک مسلمان کو ایسے رضا کارانہ کاموں پر آمادہ کرتی ہے اور نیکی پر اکساتی ہے تاکہ دوسری دنیا میں وہ اس کا اجر پا کر آسودگی کی زندگی بسر کر سکیں۔

خدمت خلق اسلام کا ایک نظریاتی حصہ ہے اور مواخات اسلامی معاشرے کا ایک بنیادی وصف اور روایت ہے جو ہر ملاقات پر 'اسلام علیکم' کا تحفہ ملاقاتی کی دعا بن کر اپنے مخاطب کی خدمت میں پیش ہوتا ہے ''تم پر خدا کی سلامتی ہو''۔ قرآن پاک اور لاتعداد احادیث میں مسلمانوں کے باہمی تعلق کا ذکر ملتا ہے اور کسی مسلمان کے ساتھ حسن سلوک بہت ہی بڑا کار ثواب سمجھا جاتا ہے بلکہ جنت کی خوش خبری کیونکہ مسلمان قوم ایک واحد جسم کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کے ساتھ جڑا ہوا اور اس کے دکھ سکھ میں عملاً شریک ہے۔

بات ہو رہی تھی اس شکایت کی کہ ہماری سول حکومت ایسا کم از کم ڈسپلن ہی کیوں نہیں اختیار کرتی کہ اسے بار بار فوج کی مدد کی ضرورت نہ پڑے۔ پاکستان میں چار بار مارشل لاء نافذ ہوا لیکن جن ملکوں میں ایسا نہیں ہوا کیا وہ زندہ و سلامت اور ترقی پذیر نہیں ہیں اور ان سب ملکوں نے یہ ترقی کسی مارشل لاء کے بغیر حاصل کی ہے۔ مارشل لاء کی محتاجی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی ڈنڈے کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ ایک نالائق اور سست قوم ہیں جو آزادی کے لیے نہیں بلکہ کسی دوسری قوم کی غلامی کے لیے پیدا ہوئی ہے کیونکہ مارشل لاء عام آبادی کے لیے ایک آقا بن جاتا ہے اور اس سے حکماً کام لیتا ہے یعنی وہ کام جو کسی قوم کے افراد کو خود بخود کرنا چاہیے وہ کسی خوف مجبوری اور زبردستی کے ساتھ کیوں ہو۔

ہم پاکستانی ایک دشمنی والی قوم ہیں اور ہمارے دشمن بے حد ہوشیار اور چالاک ہیں اپنے دشمنوں کو یہ موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ ہماری کمزوریوں کو نگاہ میں رکھیں۔ ہمارے اندر بطور مسلمان ایسی کمزوری ہونی ہی نہیں چاہیے جو دشمن کو شہ دے سکے۔ ہمیں تو ایک برتر قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے ورنہ ہمیں کوئی زندہ نہیں رہنے دے گا۔

کیا بات ہے کہ ہم نہ کشمیر کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں اور نہ کالا باغ ڈیم بنا سکتے ہیں کیونکہ ہمارا دشمن ہم سے زیادہ طاقت ور ہو نہ ہو چالاک اور باخبر ضرور زیادہ ہے۔ ہماری اس کمزوری کی ایک بڑی وجہ مارشل لاء ہے یعنی فوجی حکومت جو ہمارے اندر اعتماد پیدا نہیں ہونے دیتی اور بے اعتمادی کی فضا اور غیریقینی کی کیفیت میں نہ تو اپنے بنیادی مسائل حل کر سکتے ہیں اورنہ اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ بہرکیف اب ہمیں کبھی مارشل لاء کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔

مقبول خبریں